پاکستان میں کسی بھی بحران کا جواب پہلے سے طے شدہ متبادل کے طور پر یہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کو اس کا مورد الزام ٹہرا دیا جاتا ہے۔ایک ایسے ملک میں جہاں مشکل حالات سے بہت آرام سے نکلنے کے لیے سازش کے نظریات پر انحصار کیا جاتا ہے توقع کے عین مطابق اس وقت ہندوستان کی زبردست سازش کا پتہ چلا جب وزیر اعظم عمران خان کے مشیر اعلیٰ و چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) کے چیرمین لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجواکے خلاف یہ الزامات منظر عام پر آئے کہ پاکستانی فوج میں ان کی ترقی کے ساتھ ساتھ ان کی خاندانی سلطنت بھی پھلتی پھولتی اور دن دونی رات چوگنی ترقی کرتی رہی۔ ”باجوا تو بہانہ ہے ،سی ہیک اصل نشانہ ہے۔“ اگرچہ یہ دماغی خلل کہ پوری دنیا چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف سازشیں رچ رہی ہے کوئی نیا نہیں ہے اور آئے روز سر ابھارتا رہتا ہے کیونکہ یہ جادوئی تاثیر رکھتا ہے۔کسی دور میں چترال میں اپنے آپ کو مسیحا بتا نے کا دعویٰ کرنے والے ایک شخص کے خلاف توہین رسالت قانون کے تحت کارروائی کی گئی ۔ایک سرکاری عہدیدار نے کہا کہ یہ شاید سی پیک کو سبوتاژ کرنے جیسی کوئی سازش ہے۔سی پیک شروع ہونے سے کم و بیش14سال پہلے اپنی جڑیں مضبوط کرنے والی دہشت گردی بھی سی پیک کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک بڑی سازش کا جزو ہے۔سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے کیس سے ہمیں پتہ چلا کہ پاکستان میں آپ اس وقت تک مجرم ہیں جب تک کہ بے قصور نہ ثابت ہو جائیں۔
بر سر اقتدار آنے سے پہلے عمران خان نواز شریف سے کہا کرتے تھے کہ لندن میں اپنی سرمایہ کاری کی رسیدیں پیش کریں۔انہوں نے ان کی ”چوری چھپے جمع کی گئی دولت“ کے لیے ان کی اور ان کے گھر والوں کی جامہ تلاشی دیں۔اور سارا پاکستانی میڈیا اس وقت سے مالی لین دین، شواہد،منتقلی املاک اور وغیر ہم کی تاریخ وار ترتیب بیان اور اس کی گردان کرتا رہا۔لیکن وہ سب وا ہو گئیں ۔ اب عمران خان بر سر اقتدار ہیں اس لیے تمام قوانین و ضوابط تبدیل ہو گئے۔27اگست کو فیکٹ فوکس نام کی ویب سائٹ نے باجوا کے خاندان کے چار ممالک میں پھیلے کاروبار بشمول پیز فرنچائزیز، کمپنیوں،جائیداد کی خرید و فروخت اور کاروباری املاک کی غیر معمولی تفصیل شائع کی ۔ اس کے ثبوت میں سیکڑوں دستاویزات کی دستیابی کے باوجود سی پیک کے چیرمین و عمران خان کے معاون خصوصی نے آرام سے کہہ دیا کہ یہ ”گمراہ کن پروپیگنڈہ “ ہے۔سازش کے سیلاب کا باندھ ٹوٹ گیا اور اس میں سے پاکستان کو رسوا کرنے کے لیے ریڈی میڈ ہندوستانی سازش نمودار ہوئی۔”ایک ریٹائرڈ ہندوستانی فوجی افسر (میجر گورو آریہ) نے کیسے ایک پاکستانی صحافی (احمد نورانی) کو جھوٹ کے جال میں پھنسا لیا۔سازش رچنے والا کیسے یہاں رہا۔ لیکن سرکارکے شکنجہ میں جکڑے میڈیا کے محب وطن” کھوجی پترکاروں“ کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔گورو آریہ نے25جولائی کو اپنے یو ٹیوب شوز میں دعویٰ کیا تھا کہ باجوا بیرون پاکستان پیزا فرنچائزیوں اور دیگر جائیداد کے مالک ہیں ۔
لیکن آریہ شو کے بعد جب27اگست کو یہ کہانی عام ہو گئی تو یہ ساز باز کا ایک واضح ثبوت تھا۔ اس سے کچھ نہیں ہوتا کہ اس موضوع پر ٹوئیٹر پر بات کرنے والے اب اسے سوشل میڈیا پر ”باجوا لیکس“ کہتے ہیں جو وزیر اعظم عمران خان کے مشیر اعلیٰ کے19جولائی کو اس حلف نامہ کے بعد شوع ہوا جس میں انہوں نے اپنی جائیداد کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی اہلیہ کا بیرون ملک کوئی بزنس ہے اور نہ ہی کسی قسم کے کاروبار میں کوئی رقم لگائی گئی ہے۔اے آر وائی نیوز نے صحافی کے خلاف ایک مہم چھیڑ دی۔نورانی کی تصاویر شائع کرنا شروع کر دیں اور اسے پاکستان مخالف پروپیگنڈا کرنے کے لیے ہندوستانی جاسوس اور دلال کہنا شروع کر دیا۔مہم کار گر ثابت ہوئی اور نورانی کو جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں ملنا شرو ع ہو گئیں۔اس کے سابق آجر جنگ گروپ نے ،جس کے مالک فی الحال جیل میں ہیں، ایک مضمون شائع کر کے عمران خان حکومت سے کہا کہ چونکہ نورانی کچھ غیر ملکی طاقتوں کے اشارے پر پاکستان کی شبیہہ داغدار کر رہا ہے اس لیے اس کی پاکستانی شہریت چھین لی جائے ۔ ستم ظریفی یہ کہ سنگین الزامات کا سامنا کرنے والے باجوا نے وزیر اعظم کے مشیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا لیکن اسے منظور نہیں کیا گیا۔ لیکن کسی نے نوعرانی کو درست ثابت کرنے یا یہ جاننے کی کوشش نہیں کی اگر باجوا کے خلاف الزامات ہندوستانی سازش تھے تو انہوں نے استعفے کی پیش کش کیوں کی۔لیکن نہیں وہ ایسا نہیں کریںگے کیونکہ دنیا کے آزاد ترین میڈیا کو ہدایت تھی کہ باجوا کے استعفے کو ایک ایسی عظیم مثال کے طور پر پیش کیا جائے جو ان سے پیشتر کسی لیڈر نے پیش نہیں کی۔
باجوا کی نیوز اینکروں کے ساتھ ایک روز کی ٹی وی آؤٹنگ سے یہ ظاہر ہوگیا کہ وہ دھڑام سے گرے تو نہیں لیکن لرز ضرور اٹھے ہیں۔ایک شو میں ایک سوال کے بعد انہوں نے فون رکھ دیا ۔ایک دوسرے سوال پر جو مالی لین دین سے متعلق تھا وی جزبز ہوتے دکھائی دیے۔اور الٹا پوچھنے لگے کون سا مالی لین دین۔ بعد میں انہوں نے نیوز اینکر کے ساتھ خود اپنا ہی ”کون بنے گا کروڑ پتی“ کھیلنا شروع کر دیا۔کیا اسے اپنے گھر کا حساب کتاب معلوم ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی حکومت سپریم کورٹ کے موجودہ جج جسٹس قاضی فیض عیسیٰ پر اپنی اور اپنے کنبہ کے اثاثہ جات مبینہ طور پر چھپانے پر مقدمہ چلا رہی ہے۔لیکن عمران خان کہتے ہیں کہ وہ باجوا کی وضاحتوں سے مطمئن ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اپنے عہدے بر برقرار رہیں۔یہ ایک ایسے وزیر اعظم کو زیب نہیں دیتا جو احتساب حتساب کے نعروں کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوا ہو۔ ان کا باجوا کے 64بلین ڈالر کا چوکیدار ہونے پر کوئی اعتراض نہ ہونا وہ تبدیلی ہے جس کے لیے انہیں ووٹ نہیں دیا گیا تھا۔