تہران ( اے یوایس) ایرانی صدر حسن روحانی کی معاون خصوصی برائے امور خواتین معصومہ ابتکار نے نومبر 2019 کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلنے والے مظاہرین کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر گولیاں چلانے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔معصومہ ابتکار کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس نومبر میں حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لینے والے افراد در اصل تخریب کار، فسادی، سماج دشمن اور دہشت گرد عناصر تھے۔ مغربی تہران کے قدس قصبے کے مقامی گورنر کی طرف سے مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دینے اور مظاہرین کو ہلاک کرنے کی حمایت کی ہے۔
حکومت کی مقرب’ جماران’ نیوز ویب سائٹ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں معصومہ کا کہنا تھا کہ مغربی تہران کے قدس قصبے کی خاتون گورنر کی جانب سے مظاہرین پر گولی چلانے کا حکم دے کر درست فیصلہ کیا تھا۔ میں نے اس خاتون کو دیکھا ہے۔ وہ ایک مضبوط ، نڈر اور بہادر خاتون ہیں۔ احتجاج کے دوران بعض تخریب کار مظاہرین اور دہشت گردوں نے قدس قصبے پر حملہ کیا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گرد گورنر کے دفترمیں داخل ہونا چاہتے تھے جو ایک شہری دفاع کا مرکز بھی تھا۔ قصبے کے لاکھوں لوگوں افراد کی زندگیاں بچانا اس کی ذمہ داری تھی۔
کیا وہ لوگوں کو ہتھیار اٹھانے کی اجازت دیتی یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے دہشت گردوں کو روکتی؟۔خیال رہے کہ مغربی تہران کے علاقے قدس کی خاتون گورنر لیلیٰ واثقی نے ایک سال قبل وہاں پر ہونے والے مظاہروں کو کچلنے کے لیے پولیس کو طاقت کے استعمال کی اجازت دی تھی۔ پولیس نے ان کے حکم پر مظاہرین پراندھا دھند گولیاں چلائی تھیں جن کے نتیجے میں بڑی تعداد میں مظاہرین ہلاک اور زخمی ہوگئے تھے۔واثقی نے حملہ آوروں کو چور قرار دیا اور اعتراف کیا ہے کہ اس نے مظاہرین پر گولیاں چلانے کا حکم دیا تھا۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے رواں سال اکتوبر میں جاری ایک رپورٹ میں ایران میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے تہران پر زور دیا تھا کہ وہ ظالمانہ ٹرائل اور پھانسیوں کا سلسلہ بند کرے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران میں احتجاج کے دوران پولیس کے تشدد سے 304 مظاہرین جن میں 22 کم سن بچے،10 خواتین اور دیگر شہری شامل تھے ہلاک ہو گئے۔ بعض ادارے ایران میں مظاہروں کے دوران پولیس کے تشدد سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 1500 بیان کی ہے۔