کابل: افغانستان کی کابل یونیورسٹی میں کیے گئے ایک دہشت گردانہ حملے میں کم از کم22افراد ہلاک اور تقریباً دو درجن دیگر زخمی ہو گئے ۔کابل یونیورسٹی میں فائرنگ کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہیں جن میں طلبہ کو یونیورسٹی کی دیواریں پھلانگتے اور ادھر ادھر بھاگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ کئی طلبا کو ان کے کلاس روم میں خون میں لت پت پڑا دیکھا جا رہا ہے۔
افغان وزارتِ داخلہ کے ترجمان طارق آریان کے مطابق یونیورسٹی میں فائرنگ سے قبل قریبی علاقے میں ایک دھماکہ بھی ہوا ہے جس میں کم از کم چھ افراد زخمی ہوئے ہیں۔ترجمان کے بقول یونیورسٹی میں فائرنگ اور دھماکے سے متعلق یہ کہنا قبل از وقت ہوگا یہ دونوں واقعات ایک منصوبے کے تحت ہوئے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ اس وقت ہوئی جب یونیورسٹی میں طلبہ کی بڑی تعداد موجود تھی۔اس حملہ کی دولت اسلامیہ فی العراق و الشام (داعش) نے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
زندہ بچ جانے والوں نے بڑی لرزہ خیز داستان بیان کی جس سے پتہ چلا کہ صبح 11بجے ایک خود کش بمبار کیمپس میں داخل ہوا اور خو د کو دھماکے سے اڑا لیا۔جس کے فوراً بعد دو بندوق برداروں نے خوف سے چیختے پکارتے جان بچانے کے لیے بھاگتے ہوئے طلبا پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ایک23سالہ طالبعلم فریدون احمدی نے بتایا کہ جس وقت فائرنگ شروع ہوئی تو وہ کلاس روم میں تھا۔ہم سب اتنے خوفزدہ ہو گئے کہ یقین ہو گیا تھا کہ آج ہماری زندگی کا آخری دن ہو سکتا ہے۔
طلبا و طالبات سب خوف و دہشت سے تھر تھر کانپتے ہوئے چیخ رہے تھے ، دعائیں کر رہے تھے اور مدد کے لیے چلا رہے تھے۔اس نے مزیدبتایا کہ ہم سب طلبا و طالبات کمرے میں دو گھنٹے تک بند رہے ۔وزارت اعلیٰ تعلیم کےترجمان حمید عبیدی نے بتایا کہ یہ حملہ اس وقت کیا گیا ہے جب کیمپس میں ایک ایرانی کتاب میلے کے افتتاح کے لیے سرکاری عہدیداران پہنچنے ہی والے تھے۔صدر اشرف غنی نے اسے قابل مذمت دہشت گردانہ کارروائی بتایا اور ہلاک شدگان کی یاد میں ایک روز کے قومی سوگ کا اعلان کیا۔