خرطوم :(اے یو ایس ) سوڈان کے جنوبی ریاست بلیو نیل میں نسلی فسادات کے باعث دو روز کے دوران230افراد ہلاک اور 200سے زائد زخمی ہو گئے ۔خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سرکاری میڈیا نے بتایا کہ ریاست بلیو نیل میں جھڑپوں میں ابتدائی طور پر 150 ہلاکتیں رپورٹ ہوئی تھیں تاہم اب تعداد بڑھ کر 230 تک پہنچ گئی ہے۔ایتھوپیا اور جنوبی سوڈان کی،جو پہلے ہی سے سیاسی بحران سے دوچا ہے، سرحد کے قریب واقع ریاست میں گزشتہ ہفتے ہوسا قبیلے کے افراد اور مخالف گروپ کے درمابین ایک اراضی تنازعہ پر تکرار شروع ہوئی جس نے تشدد اور بڑھتے بڑھتے نسلی فساد کی شکل اختیارکر لیَ ۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ریاست میں شدید فائرنگ ہو رہی ہے اور مکانات اور دکانیں نذر آتش کردی گئی ہیں۔
صوبائی گورنر نے ایک روز قبل ہنگامی حالات کا نفاذ کردیا تھا جبکہ بدھ اور جمعرات کو لڑائی شدت اختیار کر گئی تھی۔مقامی اسمبلی کے سربراہ عبدالعزیز الامین کا کہنا تھا کہ دارالحکومت خرطوم سے 500 کلومیٹر جنوب میں واقع وادالماہی علاقے کے تین گاو¿ں میں 200 افراد مارے گئے ہیں۔امدادی اداروں سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کئی لاشوں کی تاحال تدفین نہیں ہوئی اور امدادی گروپس لاشوں کی تدفین میں مدد کریں۔صوبائی حکومت سے جاری بیان کے مطابق گورنر احمد ال اومدا بادی نے پوری ریاست بلیو نیل میں 30 روز کے لیے ہنگامی حالت نافذ کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔وادالماہی ہسپتال کے سربراہ عباس موسیٰ کا کہنا تھا کہ ہلاک افراد میں خواتین، بچے اور بزرگ بھی شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق بلیو نیل کے دارالحکومت دمازین میں سیکڑوں افراد نے احتجاج کیا اور بدامنی نامنظور کے نعرے لگائے۔کئی مظاہرین نے گورنر احمد ال اومدا بادی کی برطرفی کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ وہ ان کی حفاظت میں ناکام ہوگئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق بلیو نیل میں جولائی سے اکتوبر کے اوائل تک 149 افراد مارے گئے اور 65 ہزار بے گھر ہوگئے۔رپورٹ کے مطابق ہوسا قبیلے کے افراد ملک بھر میں مشتعل ہیں اور ان کا حکام پر الزام ہے کہ ان کے ساتھ قبائلی قوانین کے ذریعے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور بلیو نیل میں اراضی سے روکا جاتا ہے کیونکہ وہ یہاں آنے والا سب سے آخری گروپ ہے۔اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے اعداد وشمار کے مطابق سوڈان میں زمینی تنازعات انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے جہاں روزگار کا 43 فیصد زراعت اور لائیو اسٹاک سے منسلک ہے اور جی ڈی پی کا 30 فیصد ہے۔خیال رہے کہ سوڈان میں گزشتہ برس فوجی سربراہ عبدالفتاح البرہان کی سربراہی میں فوج کی جانب سے حکومت پر قبضے کے بعد سیاسی کشیدگی بدتر ہوچکی ہے اور معاشی بحران بھی گھمبیر ہوچکا ہے۔سوڈان میں فوجی حکومت کے دوران سیکیورٹی مسئلہ بن چکی ہے اور حالیہ مہینوں میں نسلی فسادات میں اضافہ ہوگیا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق ملک بھر میں نسلی فسادات کے باعث جنوری سے ستمبر تک مجموعی طور پر 546 افراد مارے گئے اور 2 لاکھ 11 ہزار نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔