کابل: ( اے یو ایس )افغان سکیورٹی فورسز کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اتوار کے روز فضائی حملے کر کے تاجکستان کی سرحد سے متصل ایک اہم شمالی صوبے کے صوبائی مرکز پر طالبان جنگجوؤں کے حملے کو پسپا کر دیا ہے۔طالبان کا یہ حملہ ان تازہ حملوں کی ایک کڑی ہے جن کے دوران انھوں نے افغانستان کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے اور افغانستان کے مختلف حصوں میں طالبان کی پیش قدمی کی اطلاعات بدستور سامنے آ رہی ہیں۔امریکہ کی زیر قیادت غیر ملکی افواج کا انخلا تقریباً دو دہائیوں تک افغانستان میں جاری رہنے والی جنگ کے بعد آخری مراحل میں ہے۔طالبان عہدیداروں نے جمعہ کے روز افغانستان کے 85 فیصد علاقے پر قبضہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم افغان عہدیداروں نے اس دعوے کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صوبہ تخار کے گورنر عبد اللہ قرلوق نے دعویٰ کیا ہے کہ ’دشمن کے جارحانہ حملوں کو پسپا کر دیا گیا ہے اور انھیں بھاری جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ افغان فضائیہ کے شدت پسندوں کے خلاف کامیاب حملوں کے نتیجے میں 55 شدت پسند ہلاک جبکہ 90 زخمی ہوئے ہیں۔روئٹرز کے مطابق وہ آزاد ذرائع سے گورنر کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکے ہیں۔
سوموار کی صبح افغان وزارتِ دفاع کی جانب سے کی گئی ٹویٹ میں بتایا گیا ہے کہ تخار کے صوبائی مرکز تالقان کے نواح میں طالبان کے ٹھکانوں پر افغان فضائیہ کے فضائی حملوں میں ایک درجن سے زیادہ طالبان جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔تخار پولیس کمانڈ کے ترجمان خلیل اسیر نے روئٹرز کو بتایا کہ ’طالبان نے کل (سنیچر) کی رات کو چار سمتوں سے تالقان پر حملہ کیا، لیکن انھیں سکیورٹی فورسز اور (مقامی) لوگوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔‘طالبان تالقان پر قبضہ کرنے کے لیے دباو¿ بڑھاتے جا رہے ہیں۔رواں ہفتے کے آغاز میں طالبان جنگجو مغربی صوبہ بادغیس کے دارالحکومت میں داخل ہوئے تھے، پولیس اور سکیورٹی مراکز پر قبضہ کرنے کے بعد انھوں نے گورنر کے دفتر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن خصوصی دستوں نے انھیں پیچھے دھکیل دیا۔غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد حالیہ ہفتوں کے دوران طالبان کی جانب سے افغانستان کے کئی علاقوں پر قبضے کے لیے نیا عزم دیکھا گیا ہے۔ پینٹاگون کا خیال ہے کہ ضلعی مراکز کا کنٹرول سنبھالنے ک بعد، طالبان صوبائی مراکز پر قبصے کے لیے زور لگائیں گے۔اطلاعات کے مطابق جنوبی افغانستان میں بھی جھڑپیں جاری ہیں۔دوسری جانب افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے غزنی کے اطراف میں بھی طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے مابین تازہ جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ چند مقامی افراد نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ غزنی کے نواح میں واقع رہائشی علاقے پر پیر کی علی الصبح مارٹر گولہ فائر کیا گیا۔
غزنی کے صوبائی حکام نے یہاں پیش آنے والے واقعات کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔افغانستان میں تشدد کے بڑھتے واقعات کے پس منظر میں اقوام متحدہ نے امداد کی نئی اپیل جاری کی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان کی آبادی کا لگ بھگ ایک تہائی حصہ خوراک کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہے اور انھیں امداد کی ضرورت ہے۔افغان کی وزارتِ دفاع کے ٹوئٹر اکاو¿نٹ سے مختلف علاقوں میں طالبان کے حملے پسپا کرنے اور ہلاکتوں کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔اسی اکاو¿نٹ سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران افغان سکیورٹی فورسز نے نگرھار، میدان وردک، خوست، قندھار، فرح، ہرات، بادغیس، سر پول، جوزجان، نیمروز، ہلمند، بدخشان، قندوز، تخار اور کپیسا صوبوں میں مختلف کارروائیوں کے دوران 271 طالبان کو ہلاک اور 162 کو زخمی کیا گیا ہے۔طالبان کی پیش قدمی اور تشدد کے واقعات کے پیش نظر اتوار کے روز انڈیا نے اعلان کیا کہ اس نے جنوبی افغانستان کے ایک بڑے شہر قندھار میں اپنے قونصل خانے سے عملے کو عارضی طور پر وطن واپس بھیج دیا ہے۔دوسری جانب امارت اسلامیہ افغانستان کے ترجمان کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے بھی متعدد مقامات پر طالبان کے قبضے اور دشمن فوج کو بھگانے کے متعدد دعوے کیے جا رہے ہیں جبکہ افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی امارت اسلامی میں شمولیت کی ویڈیوز بھی شئیر کی جا رہی ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے اب سے کچھ دیر قبل ‘طالبان کے خلاف دشمن کے دعوو¿ں اور پروپیگینڈا’ کے حوالے سے ایک وضاحتی بیان بھی جاری کیا ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ ‘جب ملک میں کٹھ پتلی دشمن بے نقاب ہوئے اور انھیں ذلت آمیز شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، ہزاروں افغان فوجیوں نے اسلامی امارت کی کھلے عام حمایت کر دی اور تقریباً دو سو اضلاع کو دشمن سے پاک کر دیا گیا، تو اب دشمن من گھڑت پروپیگنڈے کا سہارا لے رہا ہے اور بے کار حربوں پر ا±تر آیا ہے۔’ لہذا ہم اس کے بارے میں وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ:سوشل میڈیا پر جھوٹے بیانات، دستاویزات، دھمکیاں اور دیگر خطوط گردش کیے جا رہے ہیں اور حتیٰ کہ کئی علاقوں میں تو ہوائی جہاز کے ذریعے ایسے پوسٹر پھینکے گئے ہیں جن میں طالبان کی جانب سے مقامی لوگوں پر پابندیوں، انھیں دھمکیاں دینے، صنفی قوانین کی نشاندہی، زندگیوں پر کنٹرول، داڑھیاں رکھنے، نقل و حرکتوں اور یہاں تک کہ بیٹیوں کی شادی کے بارے میں بے بنیاد دعوے بھی شامل ہیں۔داعش کی کاروائیوں پر مبنی کئی سال پرانی ویڈیوز کو طالبان کی جانب سے حالیہ کاروائیاں کہہ کر شئیر کیا جا رہا ہے۔اسی طرح حال ہی میں آزاد کرائے گئے اضلاع میں مقامی افراد کے ساتھ طالبان کے ظالمانہ رویے کے متعلق دشمن کی جانب سے میڈیا میں پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔طالبان کی ہلاکتوں اور طالبان کے زیِر قبضے علاقوں کو چھڑانے کے متعدد دعوے کیے جا رہے ہیں جن کی کوئی تصدیق نہیں ہو سکتی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امارت اسلامی ان تمام دعوؤں کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ کسی بھی علاقے میں مرد یا عورت کسی کے ساتھ بھی غلط سلوک نہیں روا رکھا جا رہا اور نہ ہم اس کی اجازت دیتے ہیں۔اس میں یہ بھی کیا گیا ہے دشمن کی جانب سے کیے جا رہے اس پروپیگنڈے کا مقصد ڈر و خوف پھیلانا، عوامی رائے سے توجہ ہٹانا اور اپنی ناکامیوں کو چھپانا ہے۔کابل یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے ریٹائرڈ پروفیسر اور تجزیہ کار ڈاکٹر فاروق بشیر دونوں جانب (طالبان اور سکیورٹی فورسز) سے کیے جا رہے ان دعوو¿ں کو پروپیگینڈہ قرار دیتے ہیں۔بی بی سی کی نامہ نگار منزہ انوار سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک مجھے علم ہے افغانستان میں اکثریت کو ان دعوؤں پر یقین نہیں ہے اور وہ اسے پروپیگینڈہ سمجھتے ہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر دعوؤں کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان افغانستان کے 85 فیصد علاقے پر قابض ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جو میرے نزدیک بالکل جھوٹ ہے۔‘اس سوال کے جواب میں کہ حقیقت میں افغانستان کا کتنا حصہ طالبان کے زیرِ کنٹرول ہے، پروفیسر بشیر نے جواب دیا ’زیادہ سے زیادہ 30-35 فیصد۔‘سکیورٹی فورسز کی جانب سے طالبان کی ہلاکتوں کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’وہ زیادہ تر فضائی بمباری کا سہارا لے رہے ہیں اور جب آپ ہیلی کاپٹر اور جہازوں سے بمباری کرتے ہیں تو آپ کو کیا پتا کتنے لوگ ہلاک ہوئے اور ہوئے بھی یا نہیں، کیونکہ کوئی اس علاقے میں جا کر لاشیں گن کر آزادانہ طور پر ہلاکتوں کی تصدیق نہیں کر سکتا۔‘
طالبان کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈوز بھی شئیر کی جارہی ہیں جن میں بڑی تعداد میں افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی امارات اسلامی میں شمولیت کو دکھایا گیا ہے۔ پروفیسر بشیر اسے برین واشنگ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’شاید کچھ اہلکاروں نے انھیں جوائن کیا ہو لیکن سینکڑوں کی تعداد میں جن افراد کی شمولیت کا دعوی کیا جا رہا ہے میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔‘تو اس برین واشنگ کا مقصد کیا ہے؟ پروفیسر بشیر کہتے ہیں ’وہ افغانیوں کو مستقبل کے متعلق تشویش میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے افغانی آج کل پاسپورٹ بنوانے اور ملک سے نکلنے کی تگ و دو میں لگے ہیں۔‘’یہ افغانیوں کے لیے بھیانک خواب ہے اور بیشتر افغانی سمجھتے ہیں کہ طالبان پھر سے پورے ملک پر قابض ہو جائیں گے اور ان کا طرزِ حکمرانی پہلے جیسا ہی ہو گا۔‘