کابل:(اے یو یس) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک قانون ساز خان محمد وردک کو نشانہ بنا کر کیے گئے کار بم حملے میں 9 افراد ہلاک جب کہ 20 زخمی ہوئے ہیں۔
افغان وزیرِ داخلہ مسعود اندرابی کے مطابق حملے میں خان محمد وردک محفوظ رہے۔ جب کہ زخمیوں میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔برطانوی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق مسعود اندرابی کا کہنا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا خان محمد وردک کے روٹ پر کھڑی گاڑی میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا یا دھماکہ خیز مواد والی گاڑی حملہ آور چلا رہا تھا۔
دھماکے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی گروہ نے قبول نہیں کی۔اس دھماکے کے علاوہ بھی اتوار کو لوگر، ننگر ہار، ہلمند اور بدخشاں صوبوں میں دھماکوں کی اطلاعات ہیں۔ جن میں متعدد شہری اور سیکیورٹی اہلکار نشانہ بنے۔افغانستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران تشدد میں اضافہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب افغان حکام اور طالبان کے درمیان 20 برس سے جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات جاری ہیں۔علاوہ ازیں رواں ہفتے جمعے کو صوبہ غزنی میں رکشے میں ہونے والے مشتبہ دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
جن میں 11 بچے بھی شامل تھے۔افغان وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران طالبان کے 35 خود کش حملوں میں 487 شہری ہلاک جب کہ 1049 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جب کہ اسی عرصے میں پورے ملک میں 507 دھماکے بھی ہوئے ہیں۔بین الاقوامی برادری نے افغانستان میں تشدد میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں برس فروری کے آخر میں امن معاہدہ طے پایا تھا۔ جس کے تحت غیر ملکی افواج کو 2021 کے وسط سے افغانستان سے واپس جانا ہے۔
مذکورہ معاہدے کے بعد کئی ماہ تک افغان حکومت اور طالبان میں قیدیوں کی رہائی پر تنازع رہا۔ بعد ازاں قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہوا جس کے اگلے مرحلے میں فریقین کے درمیان بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے۔اس وقت دونوں فریقین نے مذاکرات میں 14 دسمبر سے 5 جنوری تک کا وقفہ لیا ہے اور اس کے بعد مذاکرات دوبارہ شروع ہو جائیں گے۔ جن کا مقصد افغانستان میں تقریباً دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے اور پائیدار امن کے لیے اتفاق رائے سے راستہ تلاش کرنا ہے۔
افغانستان میں حکومت تشدد میں اضافے کا الزام طالبان پر عائد کرتی ہے۔ جب کہ طالبان کی جانب سے عمومی طور پر کسی بھی دہشت گردی کے واقعے پر کوئی واضح بیان سامنے نہیں آتا۔ البتہ طالبان کئی واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کر چکے ہیں۔