At OIC summit, countries vow to provide aid to Afghanistanتصویر سوشل میڈیا

کابل:(اے یو ایس )اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے 17ویں غیر معمولی اجلاس میں جو اتوار کو اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوا، افغانستان میں امداد پہنچانے کے لیے ایسے راستے تجویز کیے گئے جو ملک کی عالمی پابندیوں میں جکڑی حکومت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنائے جا سکیں۔اس کانفرنس کی میزبانی پاکستان نے کی جس میں افغانستان کی صورتحال پر غور کیا گیا اور عالمی برادری سے امداد اور تعاون سے متعلق اپیل کی گئی۔اجلاس کا مقصد افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران پر بات کرنا اور اس کی خوراک کی قلت کا شکار نصف سے زائد آبادی کی امداد کے لیے راستے کھولنے کا تعین کرنا تھا۔

واضح رہے کہ خود اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت افغانستان میں تین اعشاریہ دو ملین بچے غذائی قلت کے دہانے پر ہیں۔اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں سے متعلق آگاہ کیا جن ان میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے زیرانتظام افغانستان میں امداد پہنچانے کے لیے اسلامک ڈویلپمنٹ بینک میں ایک ہیومینیٹرین ٹرسٹ فنڈ اور فوڈ سیکیورٹی پروگرام کا قیام پر بھی اتفاق کیا گیا۔او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے معاشی بحران کا ذکر کرتے ہوئے امریکہ پر زور دیا تھا کہ وہ افغانستان کو افغان طالبان سے علیحدہ کر کے دیکھے۔پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ پابندیاں افغانستان کے سکولوں، ہسپتالوں اور عوام تک پہنچنے والی امداد کے راستے میں حائل نہ ہوں۔

اجلاس سے قبل یہ توقع کی جا رہی تھی کہ افغانستان میں امداد کے لیے بعض مسلم ممالک مالی مدد کا اعلان کریں گے تاہم خود پاکستان اور سعودی عرب کے علاوہ کسی بھی ملک نے امداد کا اعلان نہیں کیا۔واضح رہے کہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران اعلان کیا کہ وہ افغانستان کی عوام کی مدد کے لیے ایک ارب ریال یعنی 265 ملین ڈالر امداد فراہم کریں گے۔ پاکستان اس سے قبل تقریباً 30 ملین ڈالر امداد کا اعلان کر چکا ہے۔کسی بھی ریاست یا افراد پر عالمی پابندیوں کی تین اقسام ہیں۔ پہلی اور اہم ترین قسم سلامتی کونسل کی جانب سے نافذ ہونے والی پابندی ہے۔ یہ پابندیاں اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتویں باب کے تحت نافذالعمل ہوتی ہیں۔سلامتی کونسل کی پابندیاں عالمی سطح پر بین الاقوامی قانون کا درجہ رکھتی ہیں۔

پابندیوں کی دوسری قسم میں اقوام متحدہ کے علاوہ کسی اور ادارے اور مختلف کمپنیوں کا گروپ جیسا کہ یورپی یونین یا ایف اے ٹی ایف بھی کسی وجہ سے کسی دوسرے ملک پر پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔تیسری قسم میں وہ پابندیاں شامل ہیں جو کوئی ریاست یا ملک انفرادی سطح پر کسی ملک کے خلاف عائد کرتا ہے، انھیں یکطرفہ پابندیاں کہا جاتا ہے۔انھی پابندیوں سے متعلق بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینٹر فار ایروسپیس اور سیکیورٹی سٹڈیز کے ڈائریکٹر سید محمد علی نے کہا کہ یکطرفہ پابندیاں سیاسی پالیسی تو ہو سکتی ہیں مگر دیگر ممالک کے لیے قانون کا درجہ نہیں رکھتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *