کراچی(اے یو ایس )ہمارے پڑوس میں جماعت سے وابستہ ایک شخص کی وفات ہوئی، میں تعزیت کرنے گئی دیکھا کہ ایک گھر میں پستول سمیت لڑکے جمع ہو رہے ہیں جب واپس آئی تو ایک لڑکے نے مجھ پر پستول تان کر کہا کہ کہاں منڈلاتی پھرتی ہو۔ کیا تمہیں پتہ نہیں تم بھی واجب القتل ہو۔‘خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کا تعلق احمدی جماعت سے ہے انھیں مبینہ طور پر پ±رتشدد واقعات اور ہراسگی کی وجہ سے کراچی میں دیگر دس گھرانوں سمیت اپنے گھر چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہو جانا پڑا۔‘انھوں نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ان کے علاقے میں پہلے سب کچھ ٹھیک تھا لوگوں کو معلوم تھا کہ وہ احمدی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں وہ ان کے اخلاق سے متاثر تھے لیکن بعد میں کچھ نئے لوگ آ گئے ان کی تعداد بڑھنے لگی۔’ہم جب عورتیں باہر جاتی تھیں تو وہ گندی نظروں سے دیکھتے تھے ہم نے اپنے مردوں کو شکایت کی انھوں نے کہا کہ آپ کا وہم ہے۔‘انھوں نے ہمارے دروازوں پر چاکنگ کرنا شروع کر دی کہ قادیانی واجب القتل ہیں اس کے بعد بچوں پر تشدد شروع کر دیا ہمارے دلوں میں اتنا خوف پیدا کردیا کہ ہمارا باہر نکلنا دشوار بن گیا۔ان کے مطابق ’میں ایک بار وہ بچوں کو سکول چھوڑ کر آ رہی تھیں تو ایک بزرگ جو ان کے والد کی عمر کے تھے انھیں پتھر مارنا شروع کردیے۔‘انھوں نے رک کر پوچھا کہ ’انکل آپ مجھے کیوں مار رہے ہیں تو اس نے کہا کہ آپ قادیانی ہو۔‘’حالات اس قدر سنگین ہو چکے تھے کہ ہمیں ہر وقت کام پر جانے والے بچوں کی زندگی کا خطرہ رہتا اس کے بعد ہم وہ محلہ چھوڑ گئے۔‘احمدی برادری کو ٹارگٹ کلنگ کا بھی نشانہ بنایا گیا ہے لیکن حال ہی میں ان کی عبادت گاہوں پر حملے کیے گئے ہیں۔کراچی میں احمدی کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز تحریر و تقریر تو کئی سالوں سے جاری ہیں جبکہ اسی شہر میں انھیں ٹارگٹ کلنگ کا بھی نشانہ بنایا گیا ہے لیکن حال ہی میں ان کی عبادت گاہوں پر حملے کیے گئے ہیں۔
کامران احمد (فرضی نام) کراچی موبائل مارکیٹ کسی کام سے آئے تھے تو وہاں سے اپنی عبادت گاہ کی طرف چلے گئے وہ بتاتے ہیں کہ ساڑھے تین بجے کا وقت تھا دس سے پندرہ افراد جن میں سے زیادہ تر کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے اور کچھ کے کھلے تھے وہ قادیانی مردہ باد ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے عبادت گاہ پر چڑھ گئے اور مینار توڑنے لگ گئے۔’دو پولیس والے بھی وہاں موجود تھے جنھوں نے انھیں روکنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے انھوں نے پانچ منٹ کے اندر یہ کارروائی مکمل کی میں مزاحمت تو کر نہیں سکتا تھا، انسان بے بس محسوس کرتا ہے جب وہ کچھ نہ کر سکتا ہو۔پریڈی تھانے کی حدود میں موجود احمدی عبادت گاہ پر گذشتہ ایک سال سے اعتراضات تحریری صورت موصول ہوئے تھے۔ایس ایچ او پریڈی انسپیکٹر سجاد آفریدی کہتے ہیں کہ درخواست میں کہا گیا تھا اس عبادت گاہ پر مینار موجود ہیں جو شعائر اسلام کے خلاف ہے کیونکہ امتناع احمدی آرڈیننس کے تحت وہ اسلامی شعائر استعمال نہیں کر سکتے۔انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے ختم نبوت موومنٹ کے رہنماو¿ں اور قادیانی عمائدین کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کیں، ڈی سی جنوبی نے بھی انھیں طلب کیا تاکہ معاملے کا پر امن طریقے سے حل تلاش کیا جائے لیکن بات نہیں بنی تو ختم نبوت موومنٹ والے کورٹ چلے گئے اور انھوں نے حکم لیا کہ اگر یہ قابل گرفت جرم ہے تو ایف آئی آر درج کی جائے ان کے بیانیے کے مطابق یہ قابل گرفت جرم تھا لہذا ان کی ایف آئی آر درج کردی گئی۔انسپکٹر آفریدی کے مطابق یہ مقدمہ ابھی زیر سماعت ہے اور اس کا چالان بھی پیش کر دیا گیا۔ اسی دوران تین فروری کو کچھ لوگ آئے اور تین منٹوں میں یہ کارروائی کر لی۔’پولیس اہلکار وہاں موجود تھے لیکن لوگوں کی تعداد زیادہ تھی وہ مشتعل بھی تھے انھوں نے پولیس کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا‘۔انھوں نے بتایا کہ ’عدالت نے فیصلہ نہیں کیا تھا لیکن جب پولیس پہنچی تو لوگوں نے یہ سمجھا کہ پولیس کی موجودگی میں عدالت کے حکم پر عملدر آمد کرایا جارہا ہے۔‘کراچی کے پریڈی تھانے پر حالیہ حملے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، احمدی کمیونٹی نے پانچ افراد کو نامزد کیا ہے جبکہ باقی نامعلوم ہیں۔انسپیکٹر سجاد آفریدی کے مطابق ’پانچ لوگ جو نامزد کیے ہیں وہ ہی جو ان میٹنگز میں شریک رہے ہیں اس سے قبل جمشید کواٹر تھانے کی حددو میں مارٹن روڈ پر عبادت گاہ پر حملے کی جو ایف آئی آر درج کرائی گئی اس میں بھی انھیں ہی نامزد کیا گیا تھا وہ گرفتاری سے قبل ضمانت حاصل کرچکے ہیں۔‘’تفتیش میں معلوم ہوگا کہ ان کا کیا کردار ہے جو لوگ آئے وہ باہر سے تھے، ختم نبوت موومنٹ کے نام سے درخواست دی گئی تھی اب یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان ہی کہ لوگ ہیں یا باہر کے لوگ ہیں۔
‘جماعت احمدیہ کے ترجمان عامر محمود کا دعویٰ ہے کہ ’جو پولیس نے بتایا ہے اور جو ویڈیوز سامنے آئی ہیں ان سے تو یہ واضح ہو رہا ہے کہ یہ تحریک لبیک کے لوگ تھے جو جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں کراچی میں ایف آئی آر درج کرائی گئی ہیں انھیں قانون کے کٹہرے میں لانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔‘تحریک لبیک پاکستان کراچی کے امیر اور رکن صوبائی اسمبلی قاسم فخری احمدی عبادت گاہ پر حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’جن پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے وہ قصور وار ہیں یا بے قصور اس کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے۔‘’یہ تو بنیادی بات ہے جب قانون پر عمل نہیں ہوتا اور جو محافظ ہیں وہ عمل نہیں کراتے تو پھر اس قسم کے واقعات جنم لیتے ہیں یہ تو مذہبی لحاظ سے ہے ویسے عام زندگی میں بھی ایسا ہی ہو تا ہے قانون کمزور ہے۔‘احمدی جماعت کی عبادت گاہوں پر موجود میناروں اور گنبد پر اعتراض اٹھائے جاتے ہیں۔تحریک لبیک پاکستان کراچی کے امیر اور رکن صوبائی اسمبلی قاسم فخری کہتے ہیں کہ ’جب قانون میں یہ موجود ہے کہ مینار اور گنبذ نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ دیدہ دلیری اور دانستہ موجود ہیں۔‘’انھوں نے اسلامی شعائر گنبدوں اور میناروں کو چوری کیا ہے ان کی روک تھام کی ضرورت ہے، ان کے مراکز پر مینار سے مسجد کا تاثر ابھرتا ہے اور مسلمان غلطی سے چلے جاتے ہیں ایک بار ایک مفتی بھی جاچکے ہیں۔‘ماہر قانون یاسر لطیف ہمدانی کہتے ہیں کہ آئین کا آرٹیکل 20 احمدیوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی پیروی کریں اور یہ حق انھیں دینے سے انکار کیا جارہا ہے۔’سنہ 1984 سے جب سے امتناع قادیانت آرڈیننس آیا ہے اس کے تحت وہ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے، اذان نہیں دے سکتے، جہاں تک تعلق ہے آرکیٹکچر جس میں مینار ہے اس پر کسی مخصوص مذہب کا حق نہیں، بدقمستی سے ہمارے یہاں پر اس کی تشریح اس طرح سے کی گئی ہے حالانکہ اس پر کوئی خاص مستند فیصلہ موجود نہیں ہے۔’اس لیے تشریح ایسے کی جاتی ہے کہ مینار بنانا مسجد کی مشابہ ہے اگر دیکھیں تو مینار مندرکے بھی ہیں اور چرچز میں بھی ہیں، یہ ایک سوچ آ گئی ہے کہ جو بھی مینار بنائے گا وہ اکثریت کو گمراہ کرے گا۔‘اہر قانون یاسر لطیف ہمدانی کہتے ہیں کہ آئین کا آرٹیکل 20 احمدیوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی پیروی کریںیہ بھی اتفاق ہے کہ کراچی، عمرکوٹ اور میرپور خاص میں احمدی عبادت گاہوں پر حملے بلدیاتی اداروں کے انتخابات کے کچھ عرصے کے بعد ہوئے جس میں تحریک لبیک پاکستان کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی جس کی سیاسی تجزیہ نگار توقع کر رہے تھے، سوشل میڈیا پر بعض نقاد ان حملوں کو سیاسی حربہ قرار دیتے ہیں۔
تحریک لبیک پاکستان کراچی کے امیر اور رکن صوبائی اسمبلی قاسم فخری کہتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات حل ہی میں ہوئے ہیں جبکہ پریڈی سٹریٹ میں عبادت گاہ والا معاملہ پہلے سے جاری تھا اور یہ آج یا کل کا معاملہ نہیں سالہا سال کا ہے اور ان کی ختم نبوت کی تحریک بھی پرانی ہے۔لمس یونیورسٹی کے پروفیسر علی عثمان قاسمی کہتے ہیں کہ سیاسی محرکات سے سب آگاہ ہیں جبکہ پاکستان کا جو قانون ہے وہ اس قسم کے رویے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔’پاکستان کا قانون، عدلیہ جو پارلیمینٹ کی ترامیم ہیں اور آرڈیننس ہیں ان کا جائزہ لیں تو آپ کو لگے گا کہ احمدی کی ایک توہین کرنے والے کے طور پر تشریح کی گئی ہے اور انھیں پاکستان کے غدار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو دونوں ہیں سنگین الزامات ہیں ان کے خلاف جو بھی کارروائی ہوگی اس کو عوامی پذیرائی حاصل ہوگی۔