اسلام آباد: پاکستان کے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جمعرات کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا انہوں نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت عارف علوی کو بھیج دیا۔

اپنے استعفیٰ نامہ میں خان نے کہا کہ میں نہایت دل گرفتگی کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ پاکستان بار کونسل نے،جس کا میں چیرمین ہوں،19فروری2020کو اپنی پریس ریلیز کے توسط سے مجھ سے مطالبہ کیا ہے کہ میں اٹارنی جنرل آف پاکستان کے عہدے سے فی الفور مستعفی ہو جاؤں۔

انہوں نے اپنے استعفیٰ نامہ میں مزید لکھا کہ کراچی بار ایسوسی ایشن،سندھ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک رکن کے طور پر اور ماضی میں ایڈوکیٹ جنرل فار سندھ، اٹارنی جنرل فار پاکستان اور سندھ ہائی کورٹ کا جج ہونے کے ناطے میں بار میں اپنے ساتھیوں اور بھائیوں کے ساتھ ہوں اور اتحاد و یکجہتی اور پیشہ ورانہ فضیلت و قابلیت کے اصولوں میں، جن کے لیے پاکستان بار ایسوسی ایشن ہمیشہ کھڑی رہی ہے، اپنے یقین و اعتماد کا اعادہ کرتا ہوں۔

اپنے مکتوب کے آخر میں خان نے کہا کہ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اٹارنی جنرل فار پاکستان کے اپنے عہدے سے مستعفی ہوتا ہوں اور التماس کرتا ہوں کہ میرا استعفیٰ فوری طور پر منظور کر لیا جائے۔

استعفے کا سبب یہ رہا کہ سپریم کورٹ نے خان کو حکم دیا تھا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس داخل کرنے کے خلاف چلینجز کی سماعت کرنے والی بنچ کے اراکین سے متعلق ان کے کئی ریمارکس پر جو اب حذف کر دیے گئے ہیں، معافی مانگنے یا ان ریمارکس کو درست ثابت کرنے لیے ثبوت پیش کریں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وفاقی حکومت نے بھی مسٹر خان کے ریمارکس سے پلہ جھاڑ لیا تھا۔جس وقت بدھ کے روزخان نے یہ ریمارکس دیے تو اس وقت عدالت عظمیٰ میں پاکستان بار کونسل کے نائب چیرمین عابد صدیقی اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید کلب حسن بھی موجود تھے۔

ان دونون نے اٹارنی جنرل کے بیان کی مذمت کی تھی اور مسٹر خان کے ساتھ ساتھ وایر قانون فروغ نسیم کے خلاف توہین عدالت مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا تھاکیونکہ یہ نہایت قابل اعتراض بیان وزیر قانون کی موجودگی میں دیا گیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *