میلبورن: آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے پیر کو چینی حکومت کو پھٹکار لگاتے ہوئے ‘ جھوٹی’ اور گھناؤنی تصویر کو ٹویٹ کرنے پر معافی مانگنے کہا ہے۔ ٹویٹ میں ایک آسٹریلیائی فوجی کو مبینہ طور پر افغانستان میں ایک بچے کو قتل کرتے دیکھا جا رہا ہے۔
بتادیں کہ اس ٹویٹ کے بعد چین اور آسٹریلیا میں سیاسی تناؤ پیدا ہوگیا ہے۔موریسن نے چین کی وزارت خارجہ سے فرضی ٹویٹ ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے ، جس میں جنگی جرم کی تحقیقات کے پس منظر میں آسٹریلیائی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
دونوں ممالک کے مابین جاری کشیدگی کے درمیان ، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے پیر کو ایک گرافک تصویر ٹویٹ کی ، جس میں ایک فوجی نے ایک بچے کے گلے پر مسکراتے ہوئے چاقو رکھا ہوا ہے جبکہ یہ بچہ ایک میمنے کو گود میں لئے ہوئے ہے۔
ڑاو¿ نے تصویر کے ساتھ لکھا کہ’آسٹریلیائی فوجیوں کے ہاتھوں افغان شہریوں اور قیدیوں کے قتل سے سخت دھچکا پہنچا ہے ، ہم اس فعل کی مذمت کرتے ہیں اور اس وحشیانہ ہلاکتوں کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتے ہیں’۔
انہوں نے لکھا کہ ‘ آپ کو ئی فکر نہ کرو کہ ہم امن کے لئے آرہے ہیں ‘۔تصویر پر لکھے پیغام کو پڑھیں ، جس میں آسٹریلیائی فوج کی طرف سے رواں ماہ دی گئی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے ، جس کے مطابق افغانستان کے 2009 سے 2013 کے درمیان 39 شہریوں اور قیدیوں کے قتل میں ملوث آسٹریلیائی فوج کے کچھ فوجیوں کے شامل ہونے کی پختہ معلومات ہیں۔
موریسن نے کہا کہ ژا ؤکے ذریعہ ٹویٹ کی گئی تصویر انتہائی بیہودہ بکواس، سخت توہین آمیز اور نہایت شرمناک‘ ہے۔ انہوںنے مزید کہا کہ حکومت چین کو اس پوسٹ پر شرمندہ ہونا چاہیے۔ یہ دنیا میں ان کی عزت و وقعت کو کم کرے گا۔
کیونکہ دیگر ممالک آسٹریلیا کے تئیں چین کے سلوک کو بغور دیکھ رہے ہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ جھوٹی اور من گھڑت تصویر ہے اور ہماری فوج کے خلاف ہتک آمیز ہے۔