سہیل انجم
کیا سعودی عرب جیسے اسلامی ملک میں بھی کسی کو لاوڈ اسپیکر پر انتہائی تیز آواز میں دی جانے والی اذان سے پریشانی ہو سکتی ہے؟ جی ہاں وہاں بھی ہو سکتی ہے اور اس کی شکایت پر وہاں کی متعلقہ وزارت کارروائی بھی کر سکتی ہے۔ یہ کارروائی شکایت کرنے والے کے خلاف نہیں بلکہ شکایت کے ازالے کے لیے کی جا سکتی ہے۔ یہ مسئلہ گزشتہ دنوں سعودی عرب میں اٹھا تھا۔ کچھ لوگوں نے یہ شکایت کی کہ انتہائی تیز آواز میں لاوڈ اسپیکر سے اذان دی جاتی ہے جس کی وجہ سے بچوں کی نیند میں خلل پڑتا ہے اور معمر اور بیمار افراد کو پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ اس قسم کی شکایت ملنے کے بعد وہاں کی وزارت برائے مذہبی امور نے یہ حکم صادر کیا کہ مساجد کے لاوڈ اسپیکروں کی آواز کم کر دی جائے اور ان کا استعمال صرف اذان اور اقامت کے لیے ہی کیا جائے۔ متعلقہ وزار ت کا کہنا ہے کہ لاوڈ اسپیکر کی آواز ایک تہائی پر رکھی جائے۔ یعنی اس کی جتنی آواز ہو سکتی ہے اس کو کم کرکے ایک تہائی کر دی جائے۔ جب یہ خبر آئی تو سعودی عرب کی متعلقہ وزارت کے ذمہ داروں سے صحافیوں نے سوال کیا تو اس کا جواب اثبات میں دیا گیا اور کہا گیا کہ لاوڈ اسپیکر سے اس انداز میں اذان نہ دی جائے کہ اس سے کسی کو پریشانی ہو۔ وزیر مذہبی امور عبد الطیف الشیخ نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ یہ اقدام شہریوں کی ان شکایات کے بعد کیا گیا ہے جو تیز آواز کو بچوں اور بڑی عمر کے افراد کے لیے پریشان کن قرار دیتے رہے ہیں۔
نشریاتی ادارے ”الجزیرہ“ کے مطابق عبد الطیف الشیخ کا کہنا تھا کہ وہ افراد جن کو نماز ادا کرنی ہوتی ہے وہ اذان کا انتظار نہیں کرتے بلکہ اس سے قبل ہی مسجد میں موجود ہوتے ہیں۔ انہوں نے اسپیکر کم سے کم استعمال کرنے کی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کئی ٹی وی چینل ایسے ہیں جو نماز اور قرآن کی تلاوت پیش کرتے ہیں۔ اس فیصلے کا جہاں کئی مساجد میں خیرمقدم کیا گیا تو سوشل میڈیا پر اس پر تنقید بھی کی گئی۔ ویسے متعلقہ وزیر کی یہ بات درست ہے۔ ہم نے خود مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں دیکھا ہے کہ مصلّی اذان سے پہلے ہی مسجد میں پہنچنا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ اس کا انتظار نہیں کرتے کہ کب اذان ہوگی اور کب وہ وضو کریں گے اور کب مسجد کے لیے روانہ ہوں گے۔ اذان سے بہت پہلے ہی مسجدیں تقریباً بھر جاتی ہیں۔ ہاں یہ بات بھی ہے کہ نماز کے دوران بھی لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور بہت سے لوگوں کی جماعت بھی چھوٹ جاتی ہے۔ لیکن اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اذان سے پہلے ہی مسجد میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں ہر مسجد میں اذان اور نماز کے درمیان صرف دس منٹ کا فرق ہوتا ہے۔ لہٰذا لوگ یہ نہیں پوچھتے کہ جماعت کتنے بجے ہے بلکہ یہ پوچھتے ہیں کہ اذان کتنے بجے ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ متعدد ہوٹلوں میں اذان اور نماز لائیو نشر کی جاتی ہے۔ مکہ مکرمہ میں تو خانہ کعبہ کے طواف کو تقریباً ہر ہوٹل میں لائیو نشر کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ٹی وی پر دیکھ کر یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ اس وقت طواف میں رش نہیں ہے اور اگر طواف کرنا ہے تو اسی وقت چلنا چاہیے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ جس کو نماز ادا کرنی ہوتی ہے وہ اذان کا انتظار نہیں کرتا۔ آج ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل ہے جس میں گھڑی بھی ہوتی ہے اور الارم بھی۔ بہت سے لوگ اپنے موبائل میں الارم لگا لیتے ہیں۔ وہ اذان کا انتظار نہیں کرتے۔
یہ صرف سعودی عرب کا معاملہ نہیں ہے بلکہ بیشتر ملکوں کا معاملہ ہے۔ ہر جگہ کے نمازی اس کا خیال رکھتے ہیں کہ کب نماز کا وقت ہوگا اور انھیں کب مسجد میں جانا چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ لاوڈ اسپیکر سے بہت فوائد ہیں۔اس سے دور دور تک اذان کی آواز پہنچ جاتی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں اس کی وہ افادیت نہیں رہ گئی جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ جو لوگ تیز آواز میں اذان کے طرفدار ہیں ان سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ جب پہلے لاوڈ اسپیکر سے اذان نہیں ہوتی تھی تو کیا لوگ نماز ادا کرنے نہیں جاتے تھے۔ یا اب بھی جو مصلی اذان کی آواز نہیں سنتے کیا وہ نماز ادا نہیں کرتے۔ یا جو لوگ اذان سن کر بھی نماز کے لیے نہیں جاتے ان کے بارے میں کیا کہیں گے۔ اذان کا مقصد لوگوں کو یہ یاد دلانا ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا اور اب آپ لوگ مسجدوں میں تشریف لائیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو اسی لیے اذان دینے کا حکم دیا تھا کہ ان کی آواز بہت بلند تھی۔ اس وقت چونکہ نماز کی ادائیگی کا معاملہ نیا نیا تھا اور پھر مشرکین کو یہ دکھانا بھی تھا کہ ہم اس طرح اللہ کی عبادت کرتے ہیں لہٰذا تیز آواز میں اذان دی جاتی تھی۔ لیکن جب لاوڈ اسپیکر کی ایجاد ہوئی تو کوئی پست آواز والا شخص بھی اذان دے سکتا ہے۔ ہندوستان میں بھی یہ مسئلہ بار بار اٹھتا رہا ہے۔ چند سال قبل بالی ووڈ سنگر سونو نگم نے فجر کے وقت لاوڈ اسپیکر پر اذان دینے پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے میری نیند میں خلل پڑتا ہے۔ میں جاگ جاتا ہوں اور پھر سو نہیں پاتا۔ اس وقت اس پر کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ کچھ لوگوں نے ان کی مخالفت کی تھی تو کچھ نے حمایت کی تھی۔ ابھی چند ماہ قبل الہ آباد یونیورسٹی کی وائس چانسلر نے بھی فجر کے وقت تیز آواز میں اذان دینے کی شکایت ضلع انتظامیہ سے کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ صبح کے وقت تیز آواز میں اذان کی وجہ سے ان کی نیند ٹوٹ جاتی ہے۔ پورے دن ان کے سر میں درد رہتا ہے اور وہ اپنا دفتری کام نہیں کر پاتیں۔ ان کی شکایت پر پولیس والوں نے متعلقہ مسجد کے ذمہ داروں سے رابطہ قائم کیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ پہلے ہی نہ صرف یہ کہ لاوڈ اسپیکر کی آواز کم کر چکے ہیں بلکہ وائس چانسلر صاحبہ کے گھر کی طرف جس ہارن کا رخ تھا اسے دوسری طرف پھیر دیا گیا ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ وائس چانسلر صاحبہ نے خود ہم لوگوں سے کہہ دیا ہوتا تو ہم ان کی شکایت پر ایسی ہی کارروائی کرتے۔ ان کو پولیس میں جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ الہ آباد کی متعلقہ مسجد کے ذمہ داروں نے انتہائی عقلمندی سے کام لیا اور سوجھ بوجھ سے مسئلے کو حل کر لیا۔ ورنہ اگر وہ اس بات پر اڑ جاتے کہ نہیں جی یہ تو ہمارے مذہبی معاملات میں مداخلت ہے اور ہم لاوڈ اسپیکر کی آواز کم نہیں کریں گے، وائس چانسلر صاحبہ سوئیں یا جاگیں، تو معاملہ بڑھ سکتا تھا۔ اس کے بعد کئی مقامات سے اس قسم کی شکایات آئیں۔ اترپردیش کے ایک وزیر نے بھی ایسی ہی شکایت کی۔ لیکن بہر حال معاملات سنبھل گئے اور کوئی زیادہ ہنگامہ نہیں ہوا۔یہ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ شرعی احکام پر عمل نہیں کرتے وہی ایسی باتوں پر زیادہ جوش خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس قسم کے اعتراضات کا ڈٹ کر مقابلہ کرکے دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اس کی فکر نہیں ہوتی کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے انھیں مسجد میں جانا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی غیر مسلم تیز آواز میں اذان کی مخالفت کرے تو مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرکے وہ یہ ثابت کر دیں گے کہ وہی سچے پکے مسلمان ہیں۔ یہ ذکر بھی بے محل نہیں ہوگا کہ جب لاوڈ اسپیکر کی ایجاد ہوئی تو بہت سے ناسمجھ مسلمان اس پر اذان دینے کے مخالف تھے۔ وہ لاوڈ اسپیکر کو شیطان کی آواز کہتے تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے افغانستان میں جب انگریزوں نے ریل کی پٹری بچھائی تو بہت سے مسلمانوں نے یہ کہہ کر پٹریاں اکھاڑ دیں اور ریل کی مخالفت کی کہ یہ تو شیطان کی سواری ہے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کوئی نئی سائنسی ایجاد ہوتی ہے تو جاہل قسم کے مسلمان اس کی مخالفت کرنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ شروع شروع میں انٹرنیٹ کی بھی مخالفت کی گئی اور اس کے خلاف فتویٰ دیا گیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ فتویٰ انٹرنیٹ پر جاری کیا گیا۔ یہ ہے عقل و شعور سے عاری مسلمانوں کا رویہ۔بہت سے مسلمان انتہائی تیز آواز میں لاوڈ اسپیکر پر اذان دینے کو ایمانی حرارت کا تقاضہ سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی ان سے آواز کم کرنے کو کہے تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ میں اس سلسلے میں ایک ذاتی مشاہدے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ گزشتہ دنوں جب میں اپنے وطن گیا تو جامع مسجد میں ایک دعوتی پروگرام رکھا گیا۔ مسجد کے اندر کا لاوڈ اسپیکر تو چالو ہی تھا میناروں کے ہارن بھی چالو تھے۔ خیر یہ کوئی ایسی بات نہیں۔ گاؤں کی خواتین کے کانوں میں بھی دعوتی باتیں پہنچیں تو اچھی بات ہے۔ لیکن مسجد کے اندر کی آواز اتنی تیز تھی کہ بس سیٹی بجنے کی دیر تھی بلکہ کبھی کبھی بج بھی جاتی تھی۔ دو تین بار آواز کم کروانی پڑی تب جا کر وہ اس لائق ہوئی کہ سماعت کو تکلیف نہ پہنچے۔ لیکن یہ بات کئی لوگوں کو پسند نہیں آئی۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے کسی عمل سے کسی انسان کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ اور خاص طور پر ہندوستان جیسے ملک میں جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے اس بات پر اڑ جانا کہ نہیں ہم خوب تیز آواز میں اذان دیں گے ٹھیک نہیں ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ رمضان کے مقدس مہینے میں بعض مقامات پر پوری پوری رات تقریری پروگرام چلتے رہتے ہیں۔
یہ بالکل خیال نہیں کیا جاتا کہ اس سے غیر مسلموں کو تو پریشانی ہوگی ہی بیمار اور معمر افراد کو بھی ہوگی۔ ان لوگوں کو بھی ہوگی جو بے خوابی کے مرض میں مبتلا ہیں اور بچوں کو بھی ہوگی۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جب سعودی عرب میں نیچی آواز میں بلکہ ایک تہائی آواز پر اذان دینے کا حکم دیا گیا ہے تو کیا ہندوستان جیسے ملک میں اس عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کیا جانا چاہیے جس میں لاوڈ اسپیکر کی آواز کی حد مقرر کی گئی ہے۔ اگر مسلمان جذبات میں آنے کے بجائے سمجھداری سے کام لیں تو ایسے تنازعات سے بچا جا سکتا ہے۔
sanjumdelhi@gmail.com