کابل: (اے یو ایس ) افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی جاری ہے اور افغان فوج کے ساتھ طالبان جنگجوو¿ں کی لڑائی اب بڑے شہروں میں بھی لڑی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ امریکہ نے ملک میں فضائی حملوں کے ذریعے متعدد اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔اطلاعات کے مطابق امریکہ نے بی-52 سٹریٹو فورٹرس (بی 52 بمبار) طیاروں کے ذریعے جو قطر میں امریکی فوجی اڈے سے اڑان بھر رہے ہیں، افغانستان کے کئی علاقوں میں بمباری کی ۔افغانستان میں بی 52 بمبار طیاروں کا دوبارہ استعمال یقیناً امریکی حکومت کی نئی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغان حکومت اور فوج کے ساتھ تعاون کیا جا رہا ہے۔ان فضائی حملوں کے پش منظر میں اس موضوع پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں بات چیت ہو رہی ہے۔
بعض لوگ اس بمباری سے افغان شہریوں اور ان کی املاک کو پہنچنے والے نقصان پر شکایت کر رہے ہیں تو کچھ کے لیے یہ بالکل درست اقدام ہے جس سے افغان فوج کی پوزیشن مستحکم ہوگی۔آٹھ انجن والے بی 52 کو بیسویں صدی کا سب سے زیادہ خطرناک بمبار طیارہ سمجھا جاتا ہے اور اسے امریکہ کی تین نسلوں نے اڑایا ہے۔اس کی افادیت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی چھ دہائیوں قبل اس کی پہلی اڑان میں تھی۔ ویت نام سے لے کر افغانستان تک ہونے والی جنگوں میں اس طیارے کا استعمال کیا گیا ہے اور توقع ہے کہ 2044 تک یہ امریکی فضائیہ کے استعمال میں رہے گا۔2018 میں بی 52 بمبار طیاروں کا دوبارہ استعمال شروع کیا گیا تھا ان کے ذریعے شمالی صوبے بدخشاں میں طالبان کے تربیتی مراکز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
سنہ 2001 میں بھی بی 52 بمبار طیاروں کو افغانستان میں استعمال کیا گیا تھا جب امریکی فوج کا مقصد طالبان کی حکومت کو ختم کرنا اور پاکستان کی سرحد کے قریب تورہ بورہ کے پہاڑوں میں القاعدہ کے رہمنا اسامہ بن لادن کی پناہ گاہوں کو تباہ کرنا تھا۔اس جہاز نے ویتنام جنگ، عراق کی دو جنگوں اور افغانستان کی حالیہ مہم میں حصہ لیا ہے۔امریکی فضائیہ کے یہ طیارے کافی پرانے ہو گئے ہیں مگر آج بھی امریکہ نے کسی کو پیغام پہنچانا ہو تو بی 52 بمبار طیارے بھجوائے جاتے ہیں۔