بلوچستان: (اے این آئی): جبراً گمشدگی کے خلاف آواز بلند کرنے والے گروپ’ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ‘کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔، پاکستان کے انقلاب ڈیلی کے مطابق نصر اللہ بلوچ نے ا س معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں جہاں ایک طرف جبری گمشدگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے وہیں دوسری جانب لاپتہ افراد کو فرضی تصادموں میں ہلاک کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے نہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران میں بھی بلوچوں کو تشدد اور بربریت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔چیئرمین نے یہ بھی کہا کہ ایران میں بہت سے بلوچ مارے گئے ہیں۔
حتیٰ کہ عورتوں کو بھی مردوں کی طرح راستہ چلتے یا گھروں سے جبراً اٹھایا جار ہا ہے۔ ہم ان سب کی مذمت کرتے ہیں۔متعدد اطلاعات کے مطابق بے قصور بلوچوں کو جعل فرضی جھڑپوں میں قتل کیا جاتا ہے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں دور افتادہ مقامات پر پائی جاتی ہیں۔صوبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹیں تیار کرنے والی تنظیم ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان اور پاکستان کے دیگر خطوں میں اغوا کی وارداتوں میں اصل ہدف طلبا ہیں۔جولائی میں پاکستانی سلامتی دستوں نے 10 طلبا سمیت 45 افراد کو زبردستی اغوا کیا جن میں سے 15 افراد کو بعد میں رہا کر دیا گیا جب کہ باقی30 افراد کاکیا حشر ہوا کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے۔
گذشتہ مہینوںکی نسبت جولائی میں ہلاکتوں کی وارداتوں بہت اضافہ ہوا ہے۔ ہیومن رائٹس کونسل آف بلوچستان نے قتل کے 48 واقعات جن میں پانچ خواتین بھی شامل ہیں، درج کیے ۔ جبکہ 14لاشوں کی ابھی تک شناخت نہیں ہو سکی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق حال ہی میں ایرانی حکومت نے ایران کے سیستان و بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان میں ایرانی سکیورٹی فورسز اور اس کے بلوچ عوام کے درمیان ہلاکت خیز جھڑپوں کے بعد پاکستان کے ساتھ گلگت بلتستان -رمدان سرحد بند کر دی تھی۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق جھڑپوں میں کم از کم 82 افراد ہلاک ہوئے۔ واضح ہو کہ بلوچ نسلی اقلیت کی آبادی والے زاہدان میں 30 ستمبر کو نماز جمعہ کے بعد ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں اور صوبے میں ایک پولیس کمانڈر کی جانب سے 15 سالہ لڑکی کے ساتھ مبینہ زیادتی کے لیے احتساب کے مطالبہ کرنے والوں سے سے اظہار یکجہتی کیا ۔