کوئٹہ: (اے یو ایس ) کینیڈا میں خود ساختہ جلاوطنی کے دوران ہلاک ہونے والی بلوچ سیاسی رہنما کریمہ بلوچ کی غائبانہ نماز جنازہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے متعدد دیگر علاقوں میں ادا کی گئی ۔گزشتہ روز کریمہ بلوچ کے آبائی علاقے میں ان کی نماز جنازہ میں لوگوں کو شرکت کی اجازت نہ دینے کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کی جانب سے صوبے بھر میں غائبانہ نمازجنازہ کی ادائیگی کا اعلان کیا گیا تھا۔
کریمہ کی میت اتوار کے روز کناڈاسے کراچی منتقل کی گئی تھی۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کی تدفین آبائی علاقے تمپ میں پیر کو گی گئی اورمنگل کو کوئٹہ شہر میں دو مقامات پر کریمہ بلوچ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ بی این پی کے زیر اہتمام نماز جنازہ سریاب کے علاقے شاہوانی سٹیڈیم میں ادا کی گئی۔جماعت کی جانب سے پہلے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ غائبانہ نماز جنازہ کی ادائیگی کوئٹہ میونسپل کارپوریشن کے سبزہ زار پر کی جائے گی۔
تاہم بی این پی کے رہنما نوابزدہ لشکری رئیسانی نے کہا کہ انتظامیہ کی جانب سے کارپوریشن کے سبزہ زار پر اجازت نہ ملنے کے باعث انھوں نے مقام کو تبدیل کیا۔انھوں نے نماز جنازہ کی راہ میں مبینہ رکاوٹوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’جبر کی انتہا‘ قرار دیا۔اسی طرح کوئٹہ میں نیو کاہان کے علاقے میں بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام کریمہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ وہاں اس دوران ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔
منگل کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں کریمہ بلوچ کی نمازِ جنازہ اور ان کی میت دفنانے کے دوران لوگوں کو مبینہ طور پر روکے جانے پر بحث ہوئی اور اپوزیشن اراکین نے حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔کوئٹہ، کراچی اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والی چند خواتین پیر کے روز کریمہ بلوچ کی تدفین میں شریک ہونے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی شامل تھیں۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے الزام عائد کیا کہ مردوں کی طرح باہر سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بھی تمپ جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ تمپ تک پہنچنے کے لیے خواتین کو غیر معروف راستوں سے طویل فاصلے پیدل طے کرنے پڑے۔
ماہ رنگ بلوچ کے مطابق کوئٹہ اور کراچی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو انتظامیہ کے لوگوں نے تدفین کے بعد تمپ سے نکال دیا اور انھیں سخت سکیورٹی میں تربت تک پہنچایا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم رات کو تربت شہر میں قیام کرنا چاہتے تھے لیکن ہمیں وہاں ٹھہرنے نہیں دیا۔’مجھ سمیت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کو سرکاری گاڑی میں کوئٹہ اور کرچی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو کراچی پہنچا دیا گیا۔‘کریمہ بلوچ کی پر اسرار موت گذشتہ سال دسمبر میں کناڈا کے شہر ٹورنٹو میں ہوئی تھی۔ ٹورنٹو پولیس کو ان کی لاش ساحل سمندر سے ملی تھی۔ٹورنٹو پولیس نے ان کی ہلاکت کے پیچھے کسی جرم کے امکان کو مسترد کیا تھا۔لیکن کریمہ بلوچ کے خاندان کے افراد اور بلوچ قوم پرست جماعتوں نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کو ایک سازش کے تحت ہلاک کیا گیا۔
بلوچ سیاسی کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ کے مطابق یہ جلاوطنی اختیار کرنے والے بلوچ سیاسی رہنماﺅں اور دانشوروں کے ساتھ پیش آنے والا اپنی نوعیت کا دوسرا واقعہ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ جس طرح گمشدگی کے بعد سویڈن میں بلوچ صحافی ساجد حسین کی لاش پانی سے ملی تھی اسی طرح گمشدگی کے بعد کریمہ بلوچ کی بھی لاش پانی سے ملی۔کریمہ بلوچ کی بہن ماہ گنج بھی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ان کی موت حادثاتی تھی۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ماہ گنج بلوچ نے بتایا کہ ان کی بہن ایک بہادر اور مضبوط اعصاب کی مالک تھیں اور وہ خود کشی کو بزدلی سمجھتی تھیں۔ماہ گنج بلوچ نے بتایا تھا کہ ’ہم نےکریمہ بلوچ کی موت کے بارے میں بڑے پیمانے پر تحقیقات کرنے کا نہ صرف کناڈاکی حکومت سے مطالبہ کیا ہے بلکہ اقوام متحدہ سے بھی یہ مطالبہ ہے کہ وہ ا ن کی موت کے پیچھے مبینہ سازشوں کا پتا لگانے کے لیے تحقیقات کرائے۔
کریمہ بلوچ کی ہلاکت کے خلاف بلوچ قوم پرست جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے بلوچستان میں احتجاج بھی کیا گیا تھا۔ان کی جانب سے بھی کریمہ بلوچ کی موت کے بارے میں تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔بی بی سی کے نمائندے ریاض سہیل کے مطابق کریمہ بلوچ بلوچستان کے شہر تربت میں سنہ 2005 میں اس وقت پہلی بار سامنے آئی تھیں جب انھوں نے ہاتھ میں ایک لاپتہ نوجوان گہرام کی تصویر اٹھا رکھی تھی۔ یہ نوجوان ان کا قریبی رشتے دار تھا، نقاب پہنے ہوئے یہ نوجوان لڑکی کون تھیں، صرف چند ہی لوگ جانتے تھے۔ضلع کیچ کی تحصیل تمپ سے تعلق رکھنے والی کریمہ بلوچ کے والدین غیر سیاسی تھے تاہم ان کے چچا اور ماموں بلوچ مزاحمتی سیاست میں سرگرم رہے ہیں۔
بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کی ماں سمجھی جانے والی طلبہ تنظیم بلوچستان ا سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے تین دھڑوں کا جب 2006 میں انضمام ہوا تو کریمہ بلوچ کو سینٹرل کمیٹی کا رکن منتخب کیا گیا۔ یہ سفر جاری رہا اور 2008 میں وہ جونیئر نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئیں جب بی ایس او کے سینیئر نائب صدر ذاکر مجید کی گمشدگی ہوئی تو کریمہ نے ان کا یہ عہدہ سنبھالا۔بی ایس او رہنما زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے بعد کریمہ نے تنظیم کے چیئرپرسن کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالی تھیں اور وہ بی ایس او کی پہلی خاتون چیئرپرسن تھیں۔ تنظیمی طور پر یہ ایک کٹھن دور تھا جب تنظیم کے مرکزی رہنماو¿ں کو جبراً لا پتہ کر دیا گیا تھا۔
بعض افراد روپوش ہو گئے تھے اور کچھ نے سرے سے اپنی راہیں ہی علیحدہ کر لی تھیں۔بلوچستان کی آزادی پر یقین رکھنے والی اس طلبہ تنظیم بی ایس او آزاد پر حکومت پاکستان نے مارچ 2013 میں پابندی عائد کردی تھی۔ ایسے میں کریمہ بلوچ نے اس تنطیم کو فعال رکھا اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جا کر تنظیمی مواد وہاں پہنچاتی رہیں۔کریمہ بلوچ کا شمار ان پہلی خواتین طلبہ رہنما کے طور پر کیا جاتا ہے جنھوں نے نئی روایت قائم کی اور تربت سے لے کر کوئٹہ تک سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔
انھوں نے تربت سے بی اے کیا اور بعد میں بلوچستان یونیورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لیا لیکن اپنی سیاسی سرگرمیوں کے باعث تعلیم جاری رکھ نہیں سکیں، پاکستان میں حالات ناساز گار ہونے کے بعد وہ کناڈا چلی گئیں جہاں انھوں نے سیاسی پناہ حاصل کی۔وہ یورپ سمیت جنیوا میں انسانی حقوق کے حوالے سے اجلاسوں میں شرکت کرتی رہیں اور ٹوئٹر اور فیس بک پر اپنے خیالات کا اظہار کرتی تھیں۔