Bangkok Declares State of Emergency as Thai Unrest Continuesتصویر سوشل میڈیا

بینکاک🙁 اے یوایس) تھائی لینڈ کی حکومت نے بنکاک میں جاری مظاہروں سے نمٹنے کے لیے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ایمرجنسی کے نفاذ کے تحت ملک میں بڑے اجتماعات پر پابندی لگائی گئی ہے۔پولیس حکام کی جانب سے ٹیلی ویڑن پر کیے گئے اعلان میں کہا گیا ہے کہ ’لوگوں کے بہت سے گروہوں نے بنکاک میں غیر قانونی عوامی اجتماعات کے لیے عوام کو دعوت نامے دیے، مشتعل کیا اور ان کا انعقاد کیا۔بیان میں کہا گیا کہ ‘ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے’ یہ اقدامات ضروری تھے۔جبکہ مظاہرین کی جانب سے تھائی بادشاہ کے اختیارات کم کرنے اور تھائی وزیر اعظم پرایوتھ چان اوچا کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سرکاری ٹی وی پر کیے گئے اعلان میں کہا گیا ہے کہ مظاہرین نے ملک میں ’بدامنی اور افراتفری کی فضا کو ہوا دی ہے۔‘ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ایمرجنسی کے نفاذ کی وجہ مظاہرین کی جانب سے بدھ کے روز شاہی قافلے کی راہ میں رکاوٹ حائل کرنا ہے۔شاہی قافلے کا راستہ روکنے والے مظاہرین جنھیں پولیس حکام نے پیچھے دھکیل دیا تھا اس وقت شاہی قافلے کا راستہ روک کر تین انگلیوں والا سیلوٹ کیا تھا جب ملکہ اس شاہی قافلے میں سفر کر رہی تھی۔تھائی لینڈ میں مظاہرین کی جانب سے تین انگلیوں والا سیلوٹ مظاہروں کی تحریک کی علامت بن چکا ہے۔حکومتی اعلان کے مطابق ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق چار بجے ہوا ہے۔

ایمرجنسی کے حکم نامے میں چار سے زیادہ افراد کے اکٹھے ہونے پر پابندی کے ساتھ ساتھ میڈیا پر بھی ‘ایسی کسی بھی خبر کی اشاعت یا دیگر الیکٹرانک میڈیا پر نشر کرنے کی پابندی عائد کی گئی ہے جس میں ایسے پیغامات موجود ہوں جو ہیجان پیدا کریں، یا جان بوجھ کر معلومات کو مسخ کریں اور غلط فہمی پیدا کریں جس سے قومی سلامتی یا امن متاثر ہو۔’روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق یہ حکم نامہ حکام کو یہ بھی اجازت دیتا ہے کہ وہ لوگوں کو ‘کسی بھی مخصوص علاقے’ میں داخلے سے روکنے کے مجاز ہیں۔رواں برس جولائی میں شروع ہونے والی طلبا کی زیرقیادت احتجاجی تحریک، تھائی لینڈ کی حکمران اسٹیبلشمنٹ کے لیے برسوں میں سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے۔دارالحکومت بنکاک میں ہفتے کے آخر میں ہونے والے مظاہرے برسوں میں ملک میں ہونے والے سب سے بڑے مظاہرے تھے جن میں ہزاروں افراد تبدیلی کا مطالبہ لیے سامنے آئے تھے۔

حکام کا کہنا ہے کہ سنیچر کو ہونے والے مظاہرے میں 18 ہزار افراد نے شرکت کی تھی جبکہ دیگر ابلاغ نے یہ تعداد اس سے کئی زیادہ بتائی تھی۔ ان افراد میں سے بہت سوں نے اتوار کو بھی مظاہرہ کیا تھا۔مظاہرین کی جانب سے شاہی نظام میں اصلاحات کرنےکا مطالبہ کیا گیا ہے جو کہ تھائی لینڈ میں کافی حساس معاملہ ہے اور جس پر تنقید کرنے پر لمبی قید کی سزا دی جاتی ہے۔جمعرات کو ایمرجنسی کے نفاذ کا حکمنامہ جاری ہونے کچھ ہی دیر بعد پولیس نے وزیر اعظم دفتر کے باہر سے مظاہرین کو منتشر کر دیا ہے۔ رائٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق چند مظاہرین نے عارضی رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے مزاحمت کی کوشش کی لیکن پولیس نے انھیں پیچھے دھکیل دیا ہے۔

مظاہرین کے منتشر ہونے کے بعد سینکڑوں پولیس اہلکار شہر کی سڑکوں پر دیکھے گئے ہیں۔انسانی حقوق کے وکلا کا کہنا تھا کہ تین احتجاجی رہنماو¿ں کو گرفتار کیا گیا ہے تاہم پولیس نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔تھائی لینڈ میں سیاسی بدامنی اور احتجاج کی ایک پرانی تاریخ ہے، لیکن فروری میں ایک نئی لہر اس وقت شروع ہوئی جب ایک عدالت نے نو منتخب جمہوریت نواز حزب اختلاف کی جماعت کو تحلیل کرنے کا حکم دے دیا۔سیاسی جماعت فیوچر فارورڈ پارٹی (ایف ایف پی) ملک کے نوجوانوں میں بہت مقبول ہے اور اس نے مارچ 2019 کے انتخابات میں پارلیمانی نشستوں کا تیسرا سب سے بڑا حصہ حاصل کیا تھا۔

ان مظاہروں کو جون میں پھر سے اس وقت تقویت ملی تھی جب ممتاز جمہوریت حامی کارکن وانچلیئرم ستساکیت کمبوڈیا میں لاپتہ ہوگئے تھے ، جہاں وہ 2014 کے فوجی بغاوت کے بعد سے جلاوطنی میں تھے۔ ان کے متعلق اب تک کوئی اطلاعات نہیں ہیں اور مظاہرین تھائی ریاست پر ان کے اغوا کا الزام لگاتے ہیں جبکہ پولیس اور حکومت نے اس الزام کی تردید کی ہے۔جولائی کے بعد سے یہاں باقاعدہ طور پر طلبا کی زیر قیادت سڑکوں پر احتجاج ہو رہا ہے۔مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ بغاوت کے بعد اقتدار پر قبضہ کرنے والے سابق آرمی چیف وزیر اعظم پریوت کی حکومت کو تحلیل کیا جائے، ملکی آئین کو دوبارہ سے لکھا جائے اور حکومتی حکام ناقدین کو ہراساں کرنا چھوڑ دیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *