Barelvi Muslims' fatwa on Udaipur killing: Beheading is crimeتصویر سوشل میڈیا

اجمیر: قانون کو ہاتھ میں لے کر کسی کو قتل کرنا ناجائز ہے اور ایسا کرنے والا شریعت کے مطابق سخت سزا کا مستحق ہے، چاہے وہ پیغمبر اسلام کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ سنی نظریے کے سب سے بڑے مذہبی رہنما سمجھے جانے والے اعلیٰ حضرت کا 1906 میں دیا گیا یہ فتویٰ ماہنامہ اعلی حضرت میں شائع کیا گیاہے۔دراصل یہ فتویٰ اودے پور میں کنہیا لال کے قتل کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ ماہنامہ ہر ماہ درگاہ اعلیٰ حضرت سے شائع ہوتا ہے جس کے مدیر درگاہ پرمکھ مولانا سبحان رضا خان عرف سبحانی میاں ہیں۔ جولائی کے مہینے میں اعلیٰ حضرت کا فتویٰ مفتی سلیم نوری نے تحریر کیا ہے۔اس فتوے میں واضح کیا گیا ہے کہ 1906 میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی سے حج کے سفر کے دوران عرب لوگوں نے فتویٰ طلب کیا تھا کہ کیا گستاخ رسول کو قتل کیا جائے؟ اعلی ٰحضرت نے شریعت کا حوالہ دیتے ہوئے اسے ناجائز قرار دیا تھا۔

فتوے میں کہا گیا کہ کسی بھی اسلامی یا غیر اسلامی ملک میں ایسے شخص کو سزا دینے کا حق صرف اس ملک کے شہنشاہ یا عدالت کو ہے۔ ماہنامہ میں شائع ہونے والے مضمون میں اعلیٰ حضرت کے فتویٰ کی بنیاد پر لکھا گیا ہے کہ بیرونی نعروں اور خوفناک افکار سے متاثر ہو کر یہ عقیدہ رکھنا کہ اسلامی نقطہ نظر سے شرانگیزی کرنے والوں کا سر کاٹنا جائز ہے۔ یہ ایک جرم ہے اور جو بھی شخص شریعت کے مطابق مجرم ہے اسے عدالت سے سزا ملنی چاہیے۔اعلیٰ حضرت کے فتوے میں کہا گیا ہے کہ جمہوری ممالک میں جرم کرنے والے کے جرم سے نفرت کرنا ہر کسی کی ذمہ داری ہے نہ کہ فرد سے۔ ایک اسلامی ملک میں جہاں توہین رسالت کی سزا موت ہے، اگر کوئی عام آدمی بھی کسی کو قتل کر دے تو اسے قاتل اور مجرم سمجھا جائے اور حکومت اور عدالت کے ذریعے سزا دی جائے۔

مفتی سلیم نوری نے مضمون میں لکھا کہ سر تن سے ہو جدا کے نعرے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اعلیٰ حضرت کو امن اور سنت کا علمبردار قرار دیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بریلوی علما نے کنہیا لال کے قتل پر سخت موقف اپنایا ہے۔ اس حوالے سے تنظیم علمائے اسلام نے اجلاس منعقد کیا اور اس واقعہ کے تمام پہلوو¿ں پر غور کرنے کے بعد یہ فتویٰ جاری کیا۔ فتوی جاری کرنے کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ واقعہ مذہب اسلام کے نام پر کیا گیا ہے تو اسلام کے رہنما آگے آیئں اور یہ فتوی ٰشائع کیا تاکہ لوگوں کو بتایا جائے کہ اسلام میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *