اس سال سکھ مذہب کے بانی اور سکھ مت کو دنیا کے طول و عرض میں پھیلانے دس نہایت محترم دس گروؤں میں پہلے گورو بابا گرو نانک کا 550 ویں پرکاش اتسو منایا جا رہا ۔ دنیا بھر کے لاکھوں سکھوں کے لئے اس یادگار موقع کوان پریشان کن حالات میں دعا کرنے اور نانک کی تعلیمات پر عمل کرنے اور ان کے بتائے راستے پر واپس آنے کے لیے منانے کا وقت ہے۔ تب ایک ایسے موقع پر جب ہم جشن منارہے ہیں کیا ہمیں خالصتان تحریک اور اس سے جنم لینے والی دہشت گردی کے سکھ تاریخ کے تاریک ابواب میں واپس جانا چاہئے؟ اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ اس تحریک کو فروغ دینے والے سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے گورو نانک کی تعلیمات سے کتنے دور اور اس تحریک کے نتائج سے کتنے ناواقف تھے ۔گرو نانک کی تعلیم کے بر عکس بھنڈراں والے نے، جو صدیوں پرانے ’دمدامی ٹکسال‘ کے سربراہ تھے ، پیار و محبت اور امن و آشتی کے درس کو فروغ دینے کی بجائے نفرت پھیلائی۔ انہوں نے گورو نانک کے تمام مذاہب ایک ہیں کے فلسفہ کے بجائے کی ایک علیحدہ سکھ مذہب کی تشہیر کی ۔
انہوں نے سکھ مذہب کے ظاہری عناصر یعنی رسومات پر، جو بنیاد پرستی کے ساتھ چلتی ہے، زور دیا جبکہ گرو نانک نے باطنیزندگی پر زور دیا۔بھنڈراں والے کی کہانی کا آغاز سیکولرزم کا وایلا کرنے والی کانگریس نے سیاسی مقاصد کے لئے جان بوجھ کر مذہبی نا اتفاقی کو بھڑکایا۔ قصہ کچھ اس طرح ہے کہ جب اندرا گاندھی اقتدار سے بے دخل تھیں ان کے بیٹے سنجے سنگھ نے پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ ذیل سنگھ کے ساتھ مل کر اس اتحاد کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کی جس نے ان کی حکومت چھین لی تھی۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے گاندھی مخالف حکمران اتحاد میں شامل سکھ مذہبی جماعت اکالی دل کو کمزور کرنے کا منصوبہ بنایا۔ سنجے گاندھی اور ذیل سنگھ نے ایک نئی اور مزید انتہا پسند سکھ پارٹی تشکیل دینے کا منصوبہ تیار کیا۔ زبردست کھیل شروع ہو گیاور نئی نئی چالیں چلی جانے لگیں۔بس پھر کیا تھاکھیل شروع ہو گیا اور نرنکاری فرقہ کو بد اعتقاد اور سکھ مت سے رو گردانی کرنے والا بتا کر ایک تحریک چلائی گئی اور اس تحریک کے قائد کے طور پر سنجے اور ذیل سنگھ کو اس وقت کے سکھ سنتوںمیں سے ایک بھنڈران والے کی شکل میں ایک سنت مل گیا۔
اکالی دل کی حکومت اسس کے ہاتھوں میں کھیل گئیی اور اس نے امرتسر میں نرنکاریوں کو ایک کنونشن منعقد کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ کن ون شن ایک ہدف کی شکل میں بھنڈراں والے کو مل گیا اور اس نے اس پر دہشت گردانہ حملہ کر دیا جس میں 12سکھ اور تین ہندو مارے گئے ۔یہ مارے گئے سکھ بعد میں بھنڈرانوالے کے پرتشدد کازکے لیے” شہدائ“ دستیاب ہو گئے ۔ اس کے فورا بعد ہی دل خالصہ کے نام سے ایک نئی پارٹی وجود میں آگئی۔ اور ان کے اس دعوے کے باوجود کہ وہ ”سیاستدان“ نہیں ایک مذہبی آدمی تھے اس پارٹی کو بھنڈراںوالے کی پارٹی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ آپریشن بلیو اسٹار سے متعلق ایک قرطاس ابیض میں کہا گیا ہے کہ دال خالصہ کی بنیاد ایک خودمختار سکھ ریاست کے قیام کے پر عزم مشن کے ساتھ رکھی گئی تھی۔ کانگریس نے ، جو اس حقیقت سے واقف تھی ، گوردواروں کا انتظام کرنے والی تنظیم شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی (ایس جی پی سی) کے انتخابات میں پارٹی کی حمایت کی۔ اس کے عوض بھنڈراں والے نے 1980 کے عام انتخابات میں جب اندرا گاندھی اقتدار میں آئیں کانگریس کے لئے انتخابی مہم چلائی۔وزارت عظمیٰ کے عہدے پر دوبارہ واپسی کے پہلے ہی سال دو ہلاکتوں نے پنجاب کو ہلا کر رکھ دیا۔ پولیس نے نرنکاریوں کے گرو بابا گوربچن سنگھ اور پنجاب کیسری کے،جو خالصتان تحریک کے خطرے کے خلاف تسلسل سے انتباہ دے رہا تھا، مالک لالہ جگت نارائن کے قتل میں بھنڈراں والے کا ہاتھ ہونے کا شبہ کیا تھا ۔
اس وقت ذیل سنگھ مرکزی وزیر داخلہ تھے اور بنیاد پرست سکھ مبلغ کے خلاف بڑھتے ہوئے شواہد کے باوجود بھنڈراں والے کے تئیں نرم گوشہ رکھتے نظر آتے تھے۔ جب مرکزی حکومت پر دباو¿ بڑھ تا ہی رہا تو عالم مجبوری میںبھنڈراں والے کی گرفتاری کے احکام جاری کر دیے گئے ۔ آخر کار بھنڈراں والے کو گرفتار کرلیا گیا لیکن ایک ماہ کے اندر ہی ذیل سنگھ نے پارلیمنٹ کو آگاہ کیا کہ پولیس کو بھنڈراں والے کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس کے فورا. بعد اسے رہا کردیا گیا۔جس دن بھنڈران والے کو گرفتار کیا گیا جالندھر کے ایک بازار میں موٹرسائیکل سوار سکھ بندوق برداروں کی فائرنگ سے چار ہندو ہلاک اور بارہ زخمی ہو گئے ، اس کے بعد امرتسر کے قریب ترن ترن میں بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا۔ پٹریاں اکھاڑ کرٹرینوں کو پٹری سے اتارنے کی تین کوششیں کی گئیں اور ان میں سے ایک میں کامیابی مل گئی اور ایک مال گاڑی پٹری سے اتر گئی ۔بھنڈراں والے کی گرفتاری کے 9 دن بعد دل خالصہ کے پانچ ممبران ہندوستانی ایئر لائنز کا طیارہ اغوا کر کے پاکستان لے گئے۔ اغوا کار ، جن پربعد میں پاکستانی کمانڈوز نے قابو پا لیا ، بھنڈرون والے کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ان واقعات نے اس پرتشدد دور کا آغاز کر دیا جو تیرہ برسوں تک پنجاب میں دہشت گردی مچاتا رہا اور اندرا گاندھی کے قتل اور اس کے علاوہ اکالی رہنما ہرچند سنگھ لونگوال اور بھنڈراں والے کی بھی ہلاکت اور ہرمندر صاحب کمپلیکس میں انتہائی مقدس مقام اکال تخت کی بے حرمتی کا باعث بنا ۔
یہ کیسے ہوا کہ ہندوستان کی حکومت محض پنجاب میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میںسب سے خوشحال برادریوں میں سے ایک سکھ قوم کے غلبہ والی ملک کی سب سے زیادہ خوشحال ریاستوں میں سے ایک ریاست میں امن برقرار رکھنے میں ناکام رہی؟ کس کو قصوروار ٹھہرایا جائے؟ زیادہ تر الزامات بھنڈراں والے کو سہنے پڑیں گے ۔ دہشت گردی بڑا بھاری بھرکم ا لفظ ہے لیکن بھنڈراں والے کے ساتھ دربار صاحب میں داخل ہونے والے نوجوانوں کے لیے جو قتل کی وارداتیں کرتے تھے یہ محض ایک لفظ تھا ۔ انہوں نے اکال تخت کو قلعے میں تبدیل کرکے اور وہاں سے اسے بے دخل کرنے کے لیے فوج کی کوشش کی خلاف مزاحمت کر کے ملک کے خلاف جنگ چھیڑی۔ انہوں نے کہا کہ انھوں نے اپنے خطبوں میں ہندوو¿ں کے خلاف یہ کہہ کر نفرت پھیلائی کہ انہوں نے سکھوں کو غلام بنا رکھاہے۔لیکن مورد الزام صرف بھنڈراں والے کو ہی نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ کانگریس کے رہنماؤں نے انہیں پیدا کیا اور اس پورے عرصہ میں جب سکھ عسکریت پسندی کا دور دورہ تھا کانگریس کی ہی حکومت تھی جو سکھ انتہپانسدی سے نمٹنے میں بے دست و پا نظر آرہی تھی ۔ ابتدائی دنوں میں اس ناکامی کی ایک وجہ کانگریس کی دائمی داخلی گروہ بندی و عداوت کی روایت تھی۔ ذیل سنگھ کا اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب دربارا سنگھ سے تنازعہتھا۔ جب بھنڈران والا نے ہرمندر صاحب کے ہاسٹل کمپلیکس میں جاکر وہاں اپنا صدر دفاتر قائم کرکے حکومت کی مذمت کی تو در بارا سنگھ نے صرف ذیل سنگھ کو نیچا دکھانے کے لیے ان کے انخلا کے احکام دیے ۔اس دشمنی پر قابو پانے میں ناکامی اندرا گاندھی کی پنجاب کے بحران کے دوران دکھائی جانے والی کمزوری کی واحد مثال تھی۔
اس وقت قومی سطح پر ہنگامہ مچ گیا جب ہرمندر صاحب میں ارداس کے بعد نکلتے وقت پولس کے ڈی آئی جی کو ہرمندر صاحب کے مرکزی دروازے پر گولی مار دی گئی۔ پھر بھی اندرا گاندھی نے بھنڈراں والے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ یہ تب ہی ہوا جب سکھ عسکریت پسندوں نے ایک بس روک کر اس میں سے ہندو مسافروں کو سکھوں سے الگ کر کے انہیں گولی مار دی جس انہوں نے کارروائی کرتے ہوئے دربار اسنگھ کی حکومت کو برخاست کردیا اور صدر رفاج نافذ کر دیا گیا ۔ اس کے فورا بعد ہی ، بھنڈران والے نے دھونس جماتے ہوئے دربار صاحب کے اعلیٰ گرنتھیوں اوراکالی دل کے رہنماؤں کو ڈرا دھمکا کر اکال تخت میں داخل ہونے کی اجازت حاصل کر لیکیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس طرح ان کی گرفتاری رک جائے گی۔کچھ کا کہنا ہے کہ اندرا گاندھی اس معاملہ میں کمزور پڑ گئی تھیں کیونکہ وہ سمجھ رہی تھیں کہ بھنڈراں والا کو گرفتار کر لیا گیا تو سکھوں کے عتاب کا شکار ہونا پڑے گا ۔
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر بھنڈراں والے کو اس بات کی اجازت دی تاکہ فوج کے استعمال کا جواز پیش کرکے سکھوں کے تئیں جارحیت اور کشمیر اور شمال مشرق میں علیحدگی پسند تحریکوں کے لیے ایک مثال قائم کریں۔ میرے خیال میں یہ بعید از قیاس ایک سازشی تھیوری ہے۔ جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں پنجاب کا بحران اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ بنگلہ دیش کی جنگ سے ساکھ بنانے کے برعکس اندرا گاندھی ایک متذبذب وزیر اعظم بنی رہیں۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وزارت عظمیٰ کے تین ادوار میں معاملات اس وقت تک بڑھنے دیے جب تک کہ انہوں نے کانگریس تقسیم ، جے پی تحریک اور آپریشن بلیو اسٹار تک کی نوبت آجانے جیسے بحران کی شکل نہیں ا اختیار کرلی ۔آمدم بر سر بلیو اسٹار واضح طور پر انٹیلی جنس کی ناکامی ہوئی تھی۔ اگرچہ گولڈن ٹیمپل کمپلیکس بلیو اسٹار سے کچھ دیر پہلے تک عوام کے لئے کھلا تھا اور اکال تخت کی قلعہ بندی دیکھنے لائق تھی تھی ، فوج نے بھنڈراں والے کی مزاحمت ور اس کے فوجی مشیر شاہبیک سنگھ کی صلاحیت کو کو بہت کم آنکا۔
بھنڈراںروالے کی ہلاکت کے ساتھ ہی فوج کی غلط فہمی اور اکال تخت کو ٹینکوں سے پہنچنے والے نقصان نے سکھ عسکریت پسندی کو ہوا دی جو مزید 9 برس جاری رہی۔ ان سالوں میں بھی تذبذب ہی رہا۔ بلیو اسٹار کے صرف دو سال بعد ، سکھ عسکریت پسندوں نے ایک بار پھر گولڈن ٹیمپل پر قبضہ کر لیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھ مخالف فسادات حکومت کی نہایت حیرت انگیز ناکامی تھی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ نرسمہا راؤ جن کا فسادات کے دوران وزیر داخلہ کی حیثیت سے بے نیاز رہا کرتے تھے وہ وزیر اعظم بننے پر پنجاب سے نمٹنے میں فیصلہ کن رویہ اختیار کر لیا ۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ بے انت سنگھ اور پنجاب پولیس کے سربراہ ، کے پی ایس ایس کو انتہاپسندی کچلنے کے لیے کھلی چھوٹ دے دی ۔ 1993 تک ، وہ صورتحال پر واضح طور پر قابو پا رہے تھے اگرچہ 1995 میں بے انت سنگھ کو گولی مار دینے جیسے کچھ ناکامیاں بھی ہوئیں۔بھنڈرانوالے کے عروج کے لئے اکالی دل کے قائدین کو بھی قصوروار ٹھہرایا جا نا چاہئے ۔ انہوں نے اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن اس پر کنٹرول ختم ہوگیا۔ انہوں نے اسے اکال تخت پر قبضہ کرنے اور اسے ناپاک کرنے کی اجازت دی۔ پاکستان نے سکھ عسکریت پسندوں کو اسلحہ گولہ بارود ، پناہ گاہ اور تربیت فراہم کرکے مزید ہلچل مچا دی۔ برطانیہ ، امریکہ ، اور کینیڈا کے بہت سے سکھ بھنڈراں والے کے پرجوش حامی تھے وہ اس بات سے واقف تھے کہ ان کے وطن میں اس کی سرگرمیوں سے انہیں کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ۔لیکن اتنے سارے لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بعد ، اس سال یہ یاد رکھنا خاص طور پر موزوں ہے کہ اس افسوسناک کہانی کا آغازسیاست اور مذہب کی ممکنہ طور پر زہریلی آمیزش سے سیاسی مقاصد کے لئے گرو نانک کی تعلیمات کو مسخ کر کے کیا گیا ہے ۔
(مصنف دہلی میں بی بی سی کے سابق بیورو چیف ہیں جنھوں نے پنجاب عسکریت پسندی کی زبردست رپورٹنگ کی تھی)