تہران:ویانا مذاکرات کے دوران امریکہ نے ایران کے غیر فوجی جوہری پروگرم پر عائد کچھ پابندیوں پر دیا گیا وہ استثنیٰ ،جسے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ختم کر دیا تھا،بحال کر دیا۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے ایران پر عائد پابندیوں پر استثنیٰ کی بحالی امریکہ کی 2015میں ایران اور پانچ عالمی طاقتوں کے درمیان ہونےوالے جوہری مذاکرات میں امریکہ کی واپسی کا پہلا قدم ہے ۔
بائیڈن کی انتظامیہ نے جمعہ کے روز ایران کے جوہری پروگرام پر عائد پابندیاں ہٹانا شروع کر دیں۔ انہیں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے 2020 میں نافذ کیا تھا۔امریکی وزیر خارجہ انتونی بلنکن نے جمعہ کے روز ایران کی سویلین جوہری سرگرمیوں پر پابندیوں پر دیے گئے استثنیٰ پر دستخط کیے ۔امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان استثنیٰ سے جوہری معاہدے کی تکمیل میں مدد ملے گی اور اور ایران کو جوہری معاہدے میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے موقع ملے گا۔
وزارت نے دعویٰ کیا کہ پابندیوں کی چھوٹ کو بحال کرنا جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ میں امریکی مفادت کو پورا کرنے اور ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔اس استثنیٰ میں اراک میں ایران کے بھاری پانی کے تحقیقی ری ایکٹر کی تبدیلی، تہران کے تحقیقی ری ایکٹر کو افزودہ یورینیم کی فراہمی اور صرف شدہ ایندھن کی بیرون ملک منتقلی شامل ہے۔
پابندیوں سے مستثنیٰ بیرونی ممالک اور کمپنیوں کو ایران کے بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ، اراک ہیوی واٹر پلانٹ اور تہران کے ریسرچ ری ایکٹر میں سویلین منصوبوں پر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ سابق امریکی انتظامیہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے مئی 2020 میں ڈونالڈ ٹرمپ کی ہدایت پر استثنیٰ کو منسوخ کر دیا تھا۔
