جوش روگن
ابھی تک نو منتخب صدر جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی ٹیم میں ایشیائی امور پر دسترس رکھنے والے سینیئر عہدیدار نہیں تھے۔ لیکن بائیڈن کا ارادہ جلد ہی قومی سلامتی کونسل کے اندر ایشیا سے متعلق ایک نئے عہدے کا اعلان کرنے کا ہے۔ اور اس جگہ کو پر کرنے کے لیے انہوں نے وارت خارجہ کے ایک سابق عہدیدار کرٹ کیمپ بل کا انتخاب کیا ہے۔اس اقدام سے گھبرائے ہوئے ایشیائی اتحادیوں کو یقین دہانی کا اعادہ ہو جانا چاہئے کہ بائیڈن ایڈمنسٹریشن چین کے چیلنج کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ کیمپ بیل ”ہند پیسیفک رابطہ کار“ کے عہدے کے ساتھ ایڈمنسٹریشن میں شمولیت اختیار کریں گے۔ بائیڈن کی ٹیم کے افسران میں سے ایک نے مجھے یہ بتایا کہ کیمپ بیل کو جو عہدہ سونپا گیا ہے اس انہیں ایشیا اور چین سے متعلق امور کے مختلف معاملات کا احاطہ کرنے والے ڈائریکٹوریٹ کا وسیع پیمانے پر منجمنٹ مل جائے گا۔
ابتدائی اطلاعات میں اس عہدے کو ”ایشیا زار“ کہا گیا لیکن بائیڈن ٹیم کو یہ اصطلاح پسند نہیں آئی ۔کیمپ بیل آمد پذیر قومی سلامتی مشیر جیک سولیوان کو براہ راست رپورٹ کریں گے۔بائیڈن کی قومی سلامتی کونسل میں ایسے کئی رابطہ کار ہوں گے جنہیں ان کے ماتحت سینیئر ڈائریکٹروں کی نسبت زیادہ اختیارات حاصل ہوں گے۔امریکہ میں ایشیائی امور کے وہ ماہرین جنہیں امید ہے کہ چین سے نمٹنے میں بائیڈن ایڈمنسٹریشن ابامہ ایڈمنسٹریشن سے بھی زیادہ تقابلی سوچ رکھے گا، ہونے والے اس اعلان کو ایشیا کے حق میں مفیداور سازگار سمجھتے ہیں۔کیمپ بیل خطہ کی مشہور و معروف شخصیت ہیں ۔انہیں زبردست سفارتی تجربہ ہے اور بیوروکریٹک صلاحیتوں کے مالک اور کیپٹل ہل میں سبھی سے خوشگوار تعلقات ہیں اور یہ سب اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ ایڈمنسٹریٹیو حکمت عملی کے لیے نہایت موثر ثابت ہوں گے۔
امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے ایرک سئیرز کا کہنا ہے کہ چین کے زیرک عہدیداران اسی ادھیڑ بن میں رہیں گے کہ بائیڈن ایڈمنسٹریشن کا چین کے ساتھ رویہ کیسا رہے گا۔ لیکن کرٹ کو یہ اہم ذمہ داری سونپنا اور ان کے ساتھ تقابلی ذہن کے حامل لوگوں کا کام کرنا ایک حوصلہ افزا علامت ہے۔ کیمپ بیل ہلیری کلنٹن کے دور میں نائب وزیر خارجہ برائے امور مشرقی ایشیا و پیسیفک کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔اور وہ ڈیموکریٹک خارجہ پالیسی ٹیم میں سب سے زیادہ سینیئر عہدیدار ہیں۔انہوں نے مچل فلورنائے کے ساتھ ، جنہیں اگلا وزیر دفاع سمجھا جا رہا تھا لیکن بائیڈن نے ان کا انتخاب نہیں کیا، مل کر 2007میں سینٹر فار نیو امریکن سیکورٹی قائم کی تھی۔
کیمپ بیل کی اہلیہ لائل برینارڈ کے بارے میں بھی یہی سمجھا جا رہا تھا کہ وہ وزیر خزانہ مقر کی جائیں گی لیکن بائیڈن نے انہیں بھی نہیں چنا۔2013سے کیمپ بیل ایشیا گروپ کے نام سے اپنے قائم کردہ مشاورتی ادارے کے چیرمین اور چیف ایکزیکٹیو کے طور پر کام کررہے ہیں۔ وہ سولیوان کے ، جو کلنٹن کی زیر قیادت حکومت میں وزارت خارجہ میں خدمات انجام دے چکے ہیں،بہت نزدیک ہیں۔2019میں کیمپ بیل اور سولیوان نے ”تباہی و اتھل پتھل کے بغیر مقابلہ: امریکہ کس طرح چین کے چیلنج اور بقائے باہم دونوں کو کیسے نبھا سکتا ہے“کے عنوان سے خارجہ امور کے لیے ایک مضمون میں چین سے نمٹنے کے حوالے سے اپنی تھیوری بیان کی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ 2017میں اپنی قومی سلامتی حکمت عملی میں چین کو ”اسٹریٹجک حریف “ قرار دینے میں ٹرمپ ایڈمنسٹریشن حق بجانب تھا۔ لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ مسابقت میں ہوشیاری اور عاجزی دونوں ہونی چاہئیں۔اگرچہ بقائے باہم سے امریکی مفادات کے تحفظ اور ناگیز کشیدگی کو براہ راست ٹکراو¿ میں بدلنے سے روکنے میں مدد ملے گی تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ بنیادی اہمیت کے حامل معاملات پر مسابقت یا خود سپردگی ختم ہو جائے گی۔اس کے بجائے بقائے باہم سے مراد مسابقت کو ناقابل حل مسئلہ بنانے سے زیادہ نبھانے کی حالت کے طور پر قبول کیا جائے۔
کیمپ بیل کا خیال ہے کہ امریکہ کو اس امید پر کہ چین نرم ہو جائے گا چین کے ساتھ شمولیت پر مبنی حکمت عملی کی طور واپس نہیں آنا چاہئے۔ڈھکے چھپے گٹھ جوڑ کے توسط سے امریکہ کو چین کو یہ پیغام بھیجنے کے لیے کہ چین کی موجودہ روش سے خطرات لاحق ہیں اپنے ہم خیال ممالک کے ساتھ ہوجانا چاہئے۔ یہ کام امریکی سیاسی دانشمندی کی حالیہ تاریخ میں نہایت درجہ مشکل کاموں میں سے ایک ہوگا ۔ امریکہ اور امریکہ کے ایشیائی اتحادی ممالک میں ایشیا پر نظر رکھنے والوں کو یقین دہانی کا اعادہ کرایا جانا چاہئے کہ بائیڈن یہ کوآرڈی نیٹر عہدہ قائم کر کے اور اسے اتنے سینیئر عہدیدار سے آراستہ کرکے انڈو پیسیفک خطہ کی اہمیت کو بڑھانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔لیکن اصل آزمائش یہ ہوگی کہ کیا بائیڈن ایڈمنسٹریشن واقعتاً دس سال قبل کیمپ بیل کے ”محور ایشیا“ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وقت اور وسائل وقف کرے گا۔
(بشکریہ واشنگٹن پوسٹ)