Blinken defends US withdrawal from Afghanistanتصویر سوشل میڈیا

واشنگٹن:(اے یو ایس ) کانگریس کی سماعت کے دوران پیر کے روز امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے گزشتہ ماہ سرانجام دیے گئے افغانستان سے فوجی انخلا کے کام کا ٹھوس انداز سے دفاع کیا، جس اقدام کے ذریعے دو عشروں سے جاری امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ عمل میں لایا گیا۔ایوانِ نمائندگان کی امور خارجہ کی کمیٹی کی سماعت کے دوران اپنے بیان میں بلنکن نے کہا کہ اگر صدر جوبائیڈن نے افغانستان میں مسلح افواج کو تعینات رکھنے کا فیصلہ کیا ہوتا تو ”خاص تعداد میں امریکی فوج کو افغانستان میں تعینات کرنا پڑتا، تاکہ اپنا دفاع کرنے کے ساتھ طالبان کی چڑھائی کو روکنے کا کام کیا جائے، جس کا مطلب مزید جانوں کا نقصان ہوتا، اور پھر تعطل کو توڑنے کی خاطر ہم ایک غیر معینہ مدت تک افغانستان کی لڑائی میں الجھے رہتے”۔انھوں نے کہا کہ ”اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ اس سے بھی زیادہ عرصے تک افغانستان میں رہنے سے افغان سیکورٹی افواج یا افغان حکومت زیادہ مضبوط ہوتی یا اس قابل بنتی کہ اپنا دفاع خود کر سکے”۔

بقول ان کے، ”اگر 20 سال کے دوران، جس میں مالی اعانت، اسلحہ اور تربیت کا کام کیا گیا جس پر اربوں ڈالر کی لاگت آئی، اگر یہ سب کچھ کافی نہیں تھا؛ تو پھر مزید ایک سال، پانچ یا 10 برس تک رہنے سے کیا فرق پڑتا؟”طالبان باغیوں نے اگست کے وسط میں ملک پر قبضہ کیا، جب صدر اشرف غنی سیاسی پناہ کے لیے متحدہ عرب امارات کے طرف بھاگ نکلے۔ امریکہ نے اگست کے اواخر تک کابل ایئرپورٹ سے 124،000 افراد کا انخلا مکمل کیا، جن میں زیادہ تر افغان تھے، جن میں تقریباً 5500 امریکی تھے جب کہ تقریباً 100 امریکی پیچھے رہ گئے۔اس کے بعد چند امریکیوں کو زمینی راستے سے یا چند ایک پروازوں کے ذریعے ملک سے باہر لایا گیا ہے، جس ضمن میں طالبان نے رضامندی دکھائی۔بلنکن نے کہا کہ امریکی حکام بروقت یہ نہیں بھانپ سکے کہ افغان حکومت اتنی تیزی کے ساتھ گر سکتی ہے، جب طالبان ملک میں پیش قدمی کر رہے تھے۔بقول ان کے، محتاط اندازوں کے مطابق بھی یہ پیش گوئی ممکن نہیں تھی کہ جب امریکی افواج ملک میں موجود ہوگن تو کابل میں حکومتی افواج مات کھا سکتی ہیں۔

امریکہ کے چوٹی کے سفارت کار نے کہا کہ حالانکہ انخلا کا اصل کام مکمل ہو چکا ہے، ”باقی ماندہ امریکی شہریوں، افغان باشندوں اور اتحادی ملکوں کے شہریوں اور پارٹنر ملکوں کے افراد کو ملک سے باہر لانے کا کام اب بھی جاری ہے، ا±ن حضرات کے لیے جو ملک سے باہر نکلنا چاہتے ہیں”۔حزب مخالف کے ری پبلکن قانون ساز اور صدر جوبائیڈن کی ڈیموکریٹ پارٹی کے چند ساتھی، امریکی شہریوں اور ہزاروں افغان باشندوں کے انخلا کے معاملے پر انتظامیہ کے اقدامات پر تنقید کر رہے ہیں۔ یہ افغان باشندے لڑائی کے دوران بحیثیت مترجم اور مشیر امریکی افواج کے ساتھ کام کرتے رہے۔تنقید میں خاص طور پر اس وقت اضافہ دیکھا گیا جب انخلا کے آخری دنوں کے دوران کابل ایئرپورٹ کے قریب ایک خودکش بم حملہ ہوا جس میں 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے۔

داعش خراسان نے، جو مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی میں ملوث دھڑے کا گروہ ہے، خودکش حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔بلنکن نے آج پیر کے روز ایوانِ نمائندگان کی امور خارجہ کی کمیٹی کے سامنے بیان دیا جب کہ وہ منگل کو سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے روبرو پیش ہوں گے۔ادھر امریکی ووٹروں کی رائے پر مشتمل ایک قومی جائزے سے پتا چلتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت افغانستان کی خودساختہ ”دائمی جنگ” کے خاتمے کے بائیڈن کے فیصلے کی حمایت کرتی ہے، تاہم جس طریقے سے انخلا کا معاملہ انجام کو پہنچا، وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔قانون ساز امریکی انٹیلی جنس کے کام پر بھی نکتہ چینی کرتے رہے ہیں کہ وہ افغانستان پر طالبان کے قبضے اور افغان حکومت کی ناکامی سے متعلق بروقت کوئی پیشگی اطلاع نہیں دے پائے، ایسے میں جب صدر اشرف غنی نے اچانک ملک سے فرار ہو کر متحدہ عرب امارات میں سیاسی پناہ لی۔

ری پبلیکنز کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ لڑائی کے آخری ہفتوں اور دنوں کے دوران بائیڈن انتظامیہ کی کارکردگی پر سوال اٹھائیں؛ جب کہ ڈیموکریٹ اس بات کے خواہاں ہیں کہ چار امریکی صدور کی انتظامیہ کے دوران امریکہ کی جنگ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے؛ ان میں سے دو ری پبلکن صدر جارج ڈبلیو بش اور ٹرمپ؛ جب کہ دو ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر براک اوباما اور بائیڈن ہیں۔گیارہ ستمبر 2001ئ کو امریکہ خلاف حملوں کے بعد القاعدہ کی دہشت گردی کی تربیت گاہوں کو نشانہ بنانے کی غرض سے 2001ئ کے اواخر میں صدر بش نے افغانستان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ گیارہ ستمبر کے حملوں میں تقریباً 3000 افراد ہلاک ہوئے، جب دہشت گردوں نے امریکی مسافر طیارے ہائی جیک کیے اور ان کے ذریعے امریکہ کو حملوں کا نشانہ بنایا۔ ان حملوں کی 20 ویں برسی ہفتے کو منائی گئی۔بائیڈن نے انخلا کے اقدام کو ”غیر معمولی کامیابی” قرار دیا ہے اور افغانستان میں امریکی لڑائی کے خاتمے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ افغانستان میں فوجی کارروائی کو مزید وسعت دے کر اس کا فیصلہ پانچویں امریکی صدر کے لیے چھوڑا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *