سہیل انجم
ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات ایک عرصے سے انتہائی کشیدہ ہیں۔ پاکستان کی جانب سے بار بار جامع مذاکرات کی اپیل کی جاتی رہی ہے لیکن ہندوستان کا موقف رہا ہے کہ دہشت گردی اور بات چیت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتی۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے جون 2019 میں بشکیک میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کی تھی جس میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بھی موجود تھے۔ لیکن دونوں رہنماؤں میں نہ رسمی نہ غیر رسمی کسی بھی قسم کی کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ دونوں کی آنکھیں بھی چار نہیں ہوئی تھیں، نہ دونوں ایک دوسرے کے برابر سے گزرے تھے۔ پلوامہ خود کش حملے کے بعد دونوں کے باہمی رشتے اور کشیدہ ہو گئے تھے۔ اس کے بعد جب ہندوستان کی فضائیہ نے اس حملے کا جواب دینے کے لیے بالاکوٹ میں واقع جیش محمد کے ٹریننگ سینٹر کو ہدف بنایا اور اس کے اگلے ہی روز پاکستان نے بھی ایل او سی پار کرکے ہندوستان کے فضائی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تو کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ دونوں جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں اور کبھی بھی جنگ چھڑ سکتی ہے۔ اس صورت حال سے پوری دنیا تشویش میں مبتلا ہو گئی تھی کیونکہ دونوں نیوکلیائی طاقت ہیں، دونوں کے پاس ایٹم بم ہیں۔ اگر جنگ ہوتی تو اس کی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ اس میں ایٹم بم کا استعمال نہ ہوتا۔ بہر حال بعض طاقتوں نے مداخلت کرکے کشیدگی کم کروائی۔ اسی درمیان ہندوستان نے جموں و کشمیر کو خصوصی اختیارات تفویض کرنے والی دفعہ 370 کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعد پاکستان ایک بار پھر آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے عالمی فورموں پر اس معاملے کو اٹھانے کی کوشش پھر شروع کر دی۔ وزیر اعظم عمران خان نے نیویارک میں منعقدہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے نصف حصہ کشمیر پر مرکوز رکھا۔ اب بھی ان کی کوششیں جاری ہیں اور اس کوشش کا ہی نتیجہ ہے کہ چین کے دباؤ میں سلامتی کونسل میں بند کمرے میں ایک بار پھر کشمیر پر مذاکرات ہوئے ہیں۔ اس سے قبل بھی ہوئے تھے۔ حالانکہ ایسے مذاکرات کی کوئی اہمیت نہیں ہے تاہم پاکستان ایسا کرکے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر زندہ رکھنا چاہتا ہے۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات پر سردمہری بلکہ کشیدگی کی جو برف جمی ہے وہ کبھی نہیں یا کم از کم جلد نہیں پگھلے گی۔ لیکن اب ہندوستان نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس سے امید کی ایک کرن پیدا ہو گئی ہے اور سمجھا جانے لگا ہے کہ شاید اب وہ برف پگھل جائے جو ایک عرصے سے جمی پڑی ہے۔
اس سال کے اواخر میں ہندوستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا اجلاس ہونے والا ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا ہے کہ ہندوستان اس میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو مدعو کرے گا۔ حالانکہ انھوں نے عمران خان کا نام نہیں لیا بلکہ صرف یہ کہا کہ ہندوستان تمام ممبر ملکوں کے سربراہوں کو مدعو کرے گا۔ ظاہر ہے ایسے میں یہی امید کی جانی چاہیے کہ شاید عمران خان اس میں شرکت کریں۔ ہندوستان اور پاکستان 2017 میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے ممبر بنے تھے۔ عام طور پر ہندوستان اس اجلاس میں اپنے وزیر دفاع یا خارجہ کو بھیجتا ہے۔ البتہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ بھی اس میں شرکت کر چکے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا 2019 میں نریند رمودی نے شرکت کی تھی۔ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اکتوبر 2019 میں تاشقند میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ ہندوستان کا کہنا ہے کہ اس سال کے اواخر میں ہونے والے اجلاس میں تمام آٹھوں ممبران اور چار مشاہدین شرکت کریں گے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) چین کی زیر قیادت اقتصادی و سلامتی بلاک ہے۔ اس کا قیام 2001 میں روس، چین، کرغیزستان، تاجکستان اور ازبیکستان نے کیا تھا۔ اگر ہندوستان میں ہونے والے اجلاس میں عمران خان شرکت کرتے ہیں تو 2018 میں ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا کہ ہندوستان ان کی میزبانی کرے گا۔ اگر وہ نہیں آتے ہیں اور کوئی وزیر اس میں شرکت کرتا ہے تو اس کی توقع ہے کہ وہ وزیر اعظم مودی سے ضرور ملاقات کرے گا۔ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے دونوں میں کافی کشیدگی ہے۔ یہاں تک کہ دونوں ملکوں میں کسی ایک کا کوئی فل ٹائم یا مستقل ہائی کمشنر نہیں ہے۔ دونوں کے ہائی کمیشنوں میں ڈپٹی ہائی کمشنر ہائی کمشنر کا کام انجام دے رہے ہیں۔
بلا شبہ یہ ہندوستان کا ایک اچھا قدم ہے اور اس کی ستائش ہو رہی ہے۔ اسے پاکستان کی جانب ہندوستان کی طرف سے ایک کھڑکی کھولنے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام، سول سوسائٹی اور فنکاروں کی خواہش ہے کہ دونوں ملکوں میں نہ صرف ایک کھڑکی کھلے بلکہ پورا دروازہ کھل جائے اور اگر ایسا ہو کہ کھڑکی دروازے کی کوئی ضرورت ہی نہ پڑے تو یہ بہت اچھی بات ہوگی۔ سابق ویر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے بہت پتے کی بات کہی تھی کہ ہم دوست تو بدل سکتے ہیں پڑوسی نہیں بدل سکتے۔ پڑوسیوں کو ساتھ مل کر رہنا ہوتا ہے۔ اس لیے اگر یہ دونوں پڑوسی مل کر رہیں تو اس سے اچھی بات اور کیا ہوگی۔ لیکن اس کے لیے ایک سازگار ماحول کی ضرورت ہوگی۔ اور اس ماحول کو بنانے کی ذمہ داری پاکستان کے اوپر ہے۔ اگر سرحد پار سے دہشت گرد ہندوستان آنا بند کر دیں اور یہاں ان کی سرگرمیاں ٹھپ ہو جائیں تو سازگار ماحول بن سکتا ہے۔ ہندوستان نے بارہا کہا ہے کہ وہ پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ دوستانہ اور خیرسگالا
نہ تعلقات چاہتا ہے۔ اور تمام تنازعات کو مذاکرات کی مدد سے حل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ماحول بھی ہونا چاہیے۔ اب یہی دیکھیے کہ پاکستان کشمیر کا مسئلہ بار بار عالمی فورموں پر اٹھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ حالانکہ یہ دونوں ملکوں کا باہمی مسئلہ ہے۔ اس کو بین الاقوامی فورم پر اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان یہ بھی چاہتا ہے کہ دوسرے ملکوں سے ثالثی کے ذریعے اس مسئلے کو حل کروایا جائے۔ یہ بھی غیر مناسب بات ہے۔ دنیا کے تمام ملکوں نے بارہا کہا ہے کہ کشمیر دونوں کا باہمی مسئلہ ہے دونوں کو خود ہی بات چیت کی میز پر بیٹھ کر اسے حل کرنا ہوگا۔ لیکن پاکستان اپنے رویے سے باز نہیں آتا۔ اس کے اسی رویے کی وجہ سے سارک جیسا ایک اہم فورم بے اثر اور غیر متحرک ہو کر رہ گیا ہے۔ حالانکہ اس کے توسط سے خطے میں بڑا کام لیا جا سکتا تھا۔
بہر حال ہندوستان کی جانب سے تعلقات کو بہتر بنانے کی ایک کوشش ہوئی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس کا خیرمقدم کرے اور اس میں عمران خان کی شرکت کو یقینی بنانے کی سعی کرے۔ اسے ایسے یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ سرحد پار سے جاری دہشت گردی اور دراندازی بند ہو اور کشمیر کو عالمی فورموں پر اٹھانا بھی بند کیا جائے۔ توقع ہے کہ اگر پاکستان ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہندوستان دو قدم بڑھائے گا۔ ہر امن پسند شخص کی یہ خواہش ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دوست کی حیثیت سے رہیں۔ اگر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اجلاس اس سلسلے میں کوئی اہم کردار ادا کر سکتا ہے تو یہ بڑی اچھی بات ہوگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہندوستان نے جو کھڑکی کھولی ہے وہ دروازے میں بدلتی ہے یا بند ہو جاتی ہے۔
sanjumdelhi@gmail.com