Can India beat China in a border war? Studies dbunk claims of China's superiority: The Weekعلامتی تصویر سوشل میڈیا

لداخ میں جہاں ہندوستان اور چین ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈالے ہے اور تقریباً 5عشروں بعد خونریزتشدد کا پہلا واقعہ ہواگلوبل ٹائمز کے، جسے چینی کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان سمجھا جاتا ہے، ایڈیٹر ہو شی جین نے ٹوئیٹر کے توسط سے کہا ہے کہ ہندوستان کو دو غلط فہمیوں سے چھٹکارہ پانے کی ضرورت ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ ہندوستانی فوجوں کو حقیقی کنٹرول لائن(ایل اے سی)پار کرنے سے روکنے کے لیے چین کی طاقت کو کم آنکتا ہے اور دوئم یہ کہ وہ سمجھتا ہے کہ ہندوستان سرحدی جنگ میں چین کو شکست دینے کی فوجی صلاحیت رکھتا ہے۔ایک دوسرے کی درست سمجھ ہند چین دوستانہ بقائے باہم کے لیے بنیاد ہے۔1967میں ناتھو لا میں ہوئی ان جھڑپوں کے ، جس میں ہندوستان کے 80فوجی مارے گئے تھے اور چین کو 300سے زائد فوجی ہلاک ہوئے تھے،بعد دونوں ملکوں کے درمیان یہ اب تک کی سب سے بڑی جھڑپ ہے۔ ادلے کا بدلہ کرتے ہوئے ہندوستان نے گلوان وادی پر چینی دعوے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے یہ ناقابل تسلیم اور غیر مستحکم دعوے فریقین کے درمیان ہونے والی مفاہمت کے منافی ہیں۔اگرچہ فوجوں کی اپنی اپنی جگہ چلے جانے کا سلسلہ جاری ہے لیکن اگر ہندوستان اور چین میں جنگ چھڑ جاتی ہے تو کیا ہوگا؟ کیا چین کی کہیں زیادہ فوجی طاقت کی روایتی سوچ جیسا کہ زیادہ تر مبصرین ظاہر کرتے رہتے ہیں، منطقی اعتبار سے درست ہوگی؟ لیکن گہرائی سے جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ درست نہیں ہو سکتا۔ ہارورڈ کے بیلفر سینٹر اور سیٹر فار اے نیو امریکن سیکورٹی (سی این اے ایسایک دوسری ہی تصویر کشی کرتا ہے۔کیا اس ساری کہانی میں عدم مساوات ہے۔ یقیناً ۔ ای این اے ایس کی رپورٹ میں چین کے دفاعی بجٹ برائے2019 کا تخمینہ ہندوستان کے بجٹ سے پانچ گنا زائد ہے اور پی ایل اے تعداد کے حساب سے ہندوستان کی مسلح افواج پر بھاری ہے۔پیپلز لبریشن آرمی کی بری فوج ، جس میں 16لاکھ فوجی بر سر خدمت ہیں،دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے جبکہ ہندوستان کے فوجیوں کی تعداد12لاکھ سپاہیوں کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان اور چین دونوں ہی کثیر رخی خطرے کے ماحول سے گھرے ہیں ۔پی ایل اے کے جنگی منصوبہ سازوں کے لیے، جن کی اصل توجہ اور فوجی وسائل جاپان سے تائیوان اور فلپائن تک پھیلے ہوئے نام نہاد فرسٹ آئس لینڈ چین کے اندر امریکہ اور اس کے حلیفوں کے طاقت کے مظاہرے پر مرکوز ہے،ہندوستان ثانوی درجہ رکھتا ہے۔دریں اثنا ہندوستان سلگتی خانگی بغاوتوں اور پاکستان کی ایٹمی طاقت بننے کی خواہش اور در پردہ جنگ سے دوچار ہے۔تاہم دو مطالعات سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ہندوستان کو دستیاب کم آنکے جانے والے روایتی فائدوںکو ، جو چینی خطروں اور حملوں سے نمٹنے میں اس کی کمزوری کو کم کرتے ہیں، مناسب طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔

دو ایٹمی طاقتوں میں موازنہ کیسے کیا جائے؟
جہاں تک معاملہ ایٹمی حملہ کرنے کی قوت کا ہے تو بیلفرپورٹ میں مذکور ہے کہ چین کی ایٹمی طاقت خشکی و سمندرسے چھوڑے جانے والے بالسٹک میزائلوں اور جنگی طیاروں پر،جو ایٹم بم بن سکتے ہیں،مشتمل ہے اور اس کے 104میزائل پورے ہندوستان یا متعدد حصوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ہندوستان کے زیادہ تر میزائل چین کی بہ نسبت پاکستان سے زیادہ قریب نصب ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً دس اگنی IٰII لانچرز چینی سرزمین تک پہنچ سکتے ہیں۔دیگر8اگنی IIلانچرز وسی چینی اہداف تک مار کر سکتے ہیں۔ ہندوستان کے پاس اپنے موافق جوابی کارروائی کی،جو اس کے اسلحہ کے وسیع پھیلاؤ اور ان کی خفیہ تنصیب پر منحصر ہے، حکمت عملی ہے ۔

:بری فوج
بیلفر رپورٹ کے تخمینے کے مطابق ہندوستان کے پاس حملہ کرنے والی فوج کی نفری 2لاکھ25ہزار ہے جس میں سے شمال میں34ہزار فوجی،وسطی حصہ میں 15ہزار500اور مشرقی سرحدوں پر ایک لاکھ 75ہزار500فوجی تعینات ہیں۔ اگرچہ اس کے مقابلہ چینی تعداد بھی کم وبیش برابر ہی ہے لیکن دیگر عوامل بھی ہیں۔سی این اے ایس کی رپورٹ میں ہندوستانی فوج کا جنگی اور جنگ جیسے ماحول کا سامنا کرنے کا تجربہ ،جو 1962کی ہند چین کے بعد 1999میں کارگل جنگ اور پاکستان کی پراکسی وار اور آئے روز ٹکراؤ کا ہے،ہندوستان کو مضبوط ظاہر کرتا ہے۔ مستقل ہوتی رہنے والی جنگی مشقوں میں حصہ لینے والی مغربی فوجیں اپنے ہندوستانی ہم منصبوں کی زبردست جنگی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔تاہم پی ایل اے کی آخری جنگ ویتنام جنگ ہے جو کمبوڈیا پر ویتنام کے حملے کے باعث ہوئی تھی۔ جہاں پی ایل اے کو امریکہ سے جنگ کے بعد ہر لحاظ سے جنگ کے لیے تیار سخت جاں و جفا کش ویتنامیوں سے سابقہ پڑا۔رپورٹ میں ہندوستان کے ذریعہ سی130-اور سی 17-گلوب ماسٹر جیسے فوجی مال بردار طیاروں کے ساتھ اپاچے اور چینیوک جنگی ہیلی کاپٹروں کے حصول سے دور افتادہ تعینات فوج کو تیزی سے بمباری کرنے میں مدد دیتے ہیں۔تاہم خطرہ بڑھ ہی رہا ہے۔ ہمالیائی محاذ پر تبت میں چین کے ذریعہ زبردست بنیادی ڈھانچہ بشمول شاہراہیں اور تیز رفتار ٹرین سے پی ایل اے کو تیزی سے نقل و حمل کرنے میں مدد ملے گی۔اس طرح چین تبت پٹھار میں تیزی سے آمد و رف جاری رکھے گا جبکہ ہندوستانی افواج کو کو غیر ہموار راستوں کی وجہ سے کافی پریشانی ہوگی۔

:بحریہ
سی این اے ایس کے مطابق ہندوستانی بحریہ کو 137جہازوں اور آبدوزوں اور 291طیاروں کی وجہ سے ای ک متوازن بحری طاقت سمجھا جاتا ہے۔کثیر رخی حملے کی صورت میں ہندوستان کو مقداری لحاظ سے 5کے مقابلہ ایک کا فائدہ حاصل ہے۔رپورٹ کے مطابق سمند ر اور جزائر کی بھرمار ہونے کے باعث ہندوستان کی جو جغرافیائی شکل ہے اس سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو لکش دیپ اور انڈومان اینڈ نکو بار جزائر کے ساتھ بحر ہند میں کمانڈنگ پوزیشن حاصل ہے۔ لیکن چونکہ ماہرین سری لنکا کی ہمبنٹوٹا بندرگاہ، پاکستان کی گوادار بندرگاہ اور جزائر نما ملیشیا اور انڈونیشیا کے جزیرے سماترا کے درمیان ایک آبی گذر گاہ آبنائے ملاکاکے چین کے ذریعہ استعمال کا غائر جائزہ لے رہے ہیں ا س لیے اس روشنی میں ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کو بحر ہند میں اپنے غلبہ و اجارہ داری کو چین سے سخت ٹکر لینا ہوگی۔چین بحیرہ جنوبی چین میں بھی کثیر رخی مصنوعی چوکیاں تعمیر کر کے اپنی پوزیشن مضبوط کر رہا ہے ۔علاوہ ازیں ای این اے ایس نے دعویٰ کیا ہے کہ ہندوستانی بحریہ کو بنیادی ڈھانچہ کو جدید کرنے کی ضرورت ہے۔ مجموعی دفاعی بجٹ میں ہندوستانی بحریہ کا حصہ جو 2010کے وسط تک 15تا16فیصد تھا وہ2018-19میں کم ہو کر 12فیصد رہ گیا ہے۔

:فضائیہ
سی این اے ایس کے اندازے کے مطابق کم از کم ہمالیائی خطہ میں ہندوستان کو مضبوط علاقائی فضائی پوزیشن حاصل ہے۔مجموعی طور پر بیلفر کی رپورٹ مین اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہندوستانی فضائیہ کو چین کے خلاف تعینات شمالی ، وسطی اور مشرقی کمان کے پاس 270جنگی طیارے اور68زمینی حملے کرنے والے طیارے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سب مستقل طور پر چین کی سرحد کے قریب تعینات ہیں۔جس کے باعث ان کی ہدف تک جلد رسائی ہوجائے گی اور چین کے سرحد پار پیش قدمی کے امکانات بھی بہت کم ہو جائیں گے۔ سی این اے ایس کے جائزے کے مطابق ایس 400-فضائی دفاعی نظام سونے پر سہاگے کا کام کرے گا۔جس سے کثیر جہتی جنگی طیاروں کو ہندوستان کی دفاعی جوابی فضائی کارروائی سے زیادہ فضا سے خشکی تک کے مشنوں پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع حاصل رہے گا۔چوتھی نسل کے جنگی طیاروں کو موازنہ کرتے ہوئے بیلفر رپورٹ میں اندزاہ لگایا گیا ہے کہ چین کے جے10-جنگی جہاز تکنیکی اعتبار سے ہندوستان کے میراج2000-جیسے ہیں اور ہندوستان کے ایس یو 30-ایم کے آئی چین کے تمام جنگی طیاروں سے زیادہ اعلیٰ درجہ کے اور جدید ہیں۔تعداد کے لحاظ سے بھی ہندوستان کو برتری حاصل ہے۔چین کے پاس مجموعی طور پر چوتھی جنریشن کے 101جنگی طیارے ہیں جبکہ ہندوستان کے پاس 122جنگی طیارے ہیں جو صرف چین کی جانب نشانہ سادھے ہیں۔

:میدان جنگ جنوبی ایشیا
چینی حملہ کے بعد بااثر امریکی تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ جنوب ایشیا میں چین کا فوری مقصد ہندوستان سے کسی بھی قسم کی مزاحمت کو روکنا اور امریکہ کے ساتھ بہت تیزی سے بڑھنے والی اس کی شراکت کیں روڑے اٹکاناہے۔ ”کورونا وائرس کے دور میں امریکہ چین مقابلہ کا ایک عالمی سروے“کے عنوان سے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ چین کی پاکستان سے گہری وابستگی اور سری لنکا سے قریبی رشتے خطہ میں اجارہ داری کے چین کے منصوبوں کے لیے نہایت اہم ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے جنوب ایشیا میں پاکستان چین کا قریب ترین حلیف ہے اور سری لنکا کے برعکس جیتا جاگتا چین کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔”جنوب ایشیا میں چین کی زور زبردستی‘] کے عنوان سے جنوب ایشیا پر ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دلیل دی جا سکتی ہے جنوب ایشیا میں چین کا فوری مقصد دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کی جانب سے ہونے والی کسی بھی مزاحمت کو محدود کرنا اور امریکہ سے اس کی بڑھتی شراکت میں رکاوٹیں ڈالنا ہے۔رپورٹ کے مطابق جنوب ایشیا میں چین کی حقیقی رکاوٹ ہندوستان ہے۔جنوب مشرقی، مشرق اور وسطی ایشیا کے برعکس جنوب ایشیا میں ہندوستان کو ایک قدرتی بالا دستی حاصل ہے اس لیے چین اسے آسانی سے پس پشت نہیں ڈال سکتا۔

ہندوستان روایتی انداز میں چین کو خود سے بالاتر سمجھنے کے بجائے مساوی گردانتا ہے اور چین کے مقاصدسے چوکس ہے اور اپنی سرحدی حدود کے اندر چین کی پیشقدمی کے خدشات سے فکر مند ہے۔آج تک چین کے ساتھ اس کے علاقائی تنازعہ سے تعلقات تلخ ہیں۔ جس سے باہمی تعاون و اشتراک سے اسے دور کرنے کے بجائے مقابلہ آرائی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *