ریاض:(اے یو ایس )سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز نے باور کرایا ہے کہ سعودی ویژن 2030 منصوبے کے پروگراموں نے صرف پانچ برسوں کے دوران غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مزید یہ کہ ان پروگراموں کے ذریعے بنیادی ڈھانچے کی سطح پر چیلنجوں سے نمٹا گیا۔سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی (ایس پی اے) کے مطابق ولی عہد نے ویژن 2030 کے لیے بھرپور سپورٹ اور توجہ کے حوالے سے مملکت کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ سعودی ولی عہد نے تمام سرکاری اداروں کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں گراں قدر قرار دیا۔ بن سلمان کے مطابق ویژن 2030 کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے اب بھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔اقتصادی اور ترقیاتی امور کی سعودی کونسل نے ویژن 2030 کے آغاز کے بعد پانچ سال گزرنے پر اب تک حاصل ہونے والے اہداف کا جائزہ لیا ہے۔
کونسل نے مملکت میں معیار زندگی کو بڑھانے کے سلسلے میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے آگاہی حاصل کی۔ ویژن 2030 کے آغاز کے بعد مملکت میں 4 گھنٹوں کے دوران صحت کے متعلق ہنگامی خدمات کی فراہمی کا تناسب 87 %سے زیادہ ہو گیا ہے۔ ویژن کے آغاز سے قبل یہ تناسب 36% تھا۔ ٹریفک حادثات میں سالانہ اموات کی شرح ہر ایک لاکھ کی آبادی میں 28.8 سے کم ہو کر 13.5 ہو گئی ہے۔ مملکت میں رہائشی یونٹوں کی ملکیت کا تناسب 60% ہو گیا ہے جو پانچ برس قبل 47% تھا۔ سال 2020 میں مملکت میں دورہ کرنے کے قابل تاریخی ورثے کے مقامات کی تعداد 354 تک پہنچ گئی۔ سال 2017ئ میں یہ تعداد 241 مقامات تک محدود تھی۔ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یونیسکو کے پاس فہرست میں درج مملکت کے عناصر کی تعداد 8 ہو گئی ہے۔ ویڑن پروگرام سے قبل یہ تعداد صرف 3 تھی۔ اسی طرح قومی ثقافتی ورثے کے ضمن میں درج شہری ورثے سے متعلق مقامات کی تعداد 2020 میں 1000 تک پہنچ گئی۔ اس کے مقابل 2016 میں یہ تعداد صرف 400 تھی۔ کونسل نے حرمین شریفین، مقامات مقدسہ اور اللہ کے مہمانوں سے متعلق خدمات کے نظام کا بھی جائزہ لیا۔ عمرے کا ویزہ حاصل کرنے کے لیے درکار وقت کو صرف 5 منٹ کر دیا گیا ہے جب کہ پہلے اس میں 14 روز لگ جاتے تھے۔ برقی سیاحتی ویزہ شروع کیا گیا جس کے لیے چند منٹ درکار ہوتے ہیں۔ اس طرح مملکت میں سیاحتی اور آثار قدیمہ و تاریخی ورثے سے متعلق مقامات کا دورہ آسان ہو گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں مملکت میں سیاحتی سیکٹر عالمی سطح پر سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا بن گیا۔ اس سیکٹر میں 14% کی نمو ریکارڈ کی گئی۔کونسل نے گذشتہ پانچ برسوں کے دوران مملکت میں مقامی اور عالمی سطح کی کھیلوں کی اور تفریحی سرگرمیوں کے انعقاد کا بھی جائزہ لیا۔
سال 2020 تک کھیلوں اور ثقافت سے متعلق 2000 سے زیادہ سرگرمیاں منعقد ہوئیں جن میں 4.6 کروڑ سے زیادہ افراد آئے۔ اس کے نتیجے میں گذشتہ برس کے اختتام تک روزگار کے ایک لاکھ مواقع پیدا ہوئے۔ سعودی عرب 2020 کے دوران میں دنیا بھر میں نمکین پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرنے کے حوالے سے سرفہرست رہا۔ گذشتہ برس اس پانی کی تیاری کا یومیہ حجم 59 لاکھ مکعب میٹر رہا۔ مملکت میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو بھی خاطر خواہ طور پر کم کیا گیا۔ ماحولیات کے تحفظ کے لیے سعودی ولی عہد کی جانب سے “گرین سعودی عرب” اور “گرین مڈل ایسٹ” منصوبوں کا اعلان کیا گیا۔سعودی اقتصادی و ترقیاتی کونسل نے کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری میں اضافے سے متعلق اہداف کا بھی جائزہ لیا۔ سرکاری سرمایہ کاری فنڈ کے اثاثے 2020 کے اختتام تک 15 کھرب ریال تک پہنچ گئے۔ سال 2015 میں ان کا حجم 570 ارب ریال سے زیادہ نہیں تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2015 سے عالمی سطح پر غیر ملکی سرمایہ کاری میں 58% کی کمی آئی تھی جب کہ سعودی عرب میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم 17.625 ارب ریال ہو گیا۔ویژن 2030 شروع ہونے سے قبل یہ حجم 5.321 ارب ریال تھا۔ اس طرح مذکورہ سرمایہ کاری میں 331% کا اضافہ ہوا۔ اسی دوران میں عالمی معیار کے بین الاقوامی منصوبے بھی متعارف کرائے گئے۔ ان میں القدّیہ اور بحر احمر کے منصوبے اہم ترین ہیں۔ سال 2020 کے اختتام پر سعودی فنانشل مارکیٹ میں غیر ملکیوں کی ملکیت کی مالیت کا حجم 195.9% کے اضافے کے ساتھ 208.3 ارب ریال تک پہنچ گیا۔سال 2020 کے لیے مسابقت کی عالمی رپورٹ میں سعودی عرب کا عالمی نمبر 24 واں رہا۔ سال 2018 کی رپورٹ میں مملکت کی عالمی پوزیشن 39 تھی۔
سال 2020 میں مملکت کی افرادی قوت میں خواتین کا تناسب 33.2% ت ہو گیا جب کہ 2017 میں یہ تناسب 19.4% تھا۔ ویڑن پروگرام کے آغاز کے بعد مملکت کی مجموعی مقامی پیداوار میں نان آئل پیداوار کا تناسب گذشتہ برس کے اختتام پر 59% تک پہنچ گیا۔ سال 2016 کے اختتام تک یہ تناسب 55% تھا۔ سال 2020 کے اختتام پر نان آئل ریونیو کا حجم پانچ برس میں 222% اضافے کے ساتھ 369 ارب ریال ہو گیا۔ اس سے قبل 2015 کے اختتام پر یہ حجم 166 ارب ریال تھا۔ ویڑن 2030 سے قبل مملکت میں کارخانوں کی تعداد 7206 تھی جب کہ اب یہ تعداد 38% اضافے کے ساتھ 9984 کارخانوں تک پہنچ گئی ہے۔سعودی عرب نے ڈیجیٹل اکانومی کے میدان میں بھی ترقی کا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ مملکت نے 5G انٹرنیٹ کی رفتار کے حوالے سے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ سال 2020 کے اختتام تک مملکت کے شہری علاقوں میں 35 لاکھ گھروں کو فائبر آپٹک انٹرنیٹ سے جوڑ دیا گیا۔ اس سے قبل 2017 میں ان گھروں کی تعداد 12 لاکھ تھی۔ویژن 2030 کے منصوبے کے دوران میں مملکت میں توانائی کے متعدد اہم اور بڑے پروگرام شروع کیے گئے۔ ان پروگراموں کی توانائی کی مجموعی پیداوار کا اندازہ 3600 میگا واٹ لگایا گیا ہے۔ اس طرح 6 لاکھ سے زیادہ رہائشی یونٹوں کو بجلی فراہم ہو گی۔ اقتصادی وترقیاتی کونسل نے تعلیم و تربیت کے شعبے میں بھی ویژن 2030 کے مثبت اور حوصلہ افزا نتائج کا جائزہ لیا۔ مملکت میں جامعات اور کالجوں کی تعداد 63 ہو گئی ہے۔ اس دوران میں شائع ہونے والی علمی تحقیقات میں 223% کا اضافہ ہوا۔ عسکری صنعت کے شعبے میں قومی سطح پر شرکت کو بڑھانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اس سیکٹر میں 2020 کے اختتام پر مقامی لوگوں کی شرکت کا تناسب 8% تک پہنچ گیا ہے۔اس سے قبل 2016 میں یہ تناسب صرف 2% تھا۔ سرکاری اداروں اور شہریوں کی سطح پر احتساب کا کلچر مضبوط ہو رہا ہے۔ گذشتہ تین برسوں کے دوران میں بدعنوانی کے انسداد کی کوششوں کے ذریعے 247 ارب ریال قومی خزانے میں واپس لوٹائے گئے۔ سال 2019 کے بعد سے مختلف سیکٹروں میں 4.22 لاکھ سعودی مرد اور خواتین شہریوں کو ملازمتیں فراہم ہوئیں۔تفصیلی جائزے کے بعد اقتصادی و ترقیاتی کونسل نے متعدد ضروری سفارشات پیش کیں۔ ان سفارشات کا مقصد ویژن 2030 پروگرام کے اہداف کو یقینی بنانے کے لیے اگلے مرحلے میں منتقلی ہے۔ یہ مرحلہ رواں سال 2021 سے شروع ہو گیا ہے اور 2025 تک جاری رہے گا۔