کابل(اے یو ایس ) افغانستان میں طالبان کو امن وامان اور اقتصادی مسائل کے ساتھ ساتھ 30 کھرب ڈالر مالیت کی قدرتی معدنیات کے تحفظ اور ان کی مناسب کان کنی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ افغانستان میں اکیسویں صدی کا سونا کہلائے جانے والے لیتھیئم کے ذخائر موجود ہیں جس پر پوری دنیا خصوصاً چین کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اس سال جنوری میں افغان طالبان نےکچھ چینی باشندوں کی جانب سے لیتھیم کی اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنا دی تھی۔روس نے افغانستان میں اپنی آمد کے ساتھ ہی وہاں میں موجود معدنی ذخائر کی تلاش شروع کر دی تھی۔ پہلی بار روس کو 1984 میں جیالوجیکل سروے کے دوران معلوم ہوا کہ افغانستان میں لیتھیم کے وسیع ذخائر موجود ہیں تاہم یہ معلومات اس وقت تک صیغہ راز میں رہیں جب تک امریکی اتحادی افواج کی آمد کے بعد افغان حکومت نے کام شروع نہیں کیا۔افغانستان کی وزارتِ مائنز اینڈ پیٹرولیم کی ویب سائٹ پر درج معلومات کے مطابق 1992 کی خانہ جنگی کے باعث افغانستان جیولوجیکل سروے کا تمام ریکارڈ اور نقشے ڈاکٹر میراکبرخان کی ہدایت پر محکمے کے ڈائریکٹریٹ سے نکال کر افغانستان جیولوجیکل سروے کے ملازمین کے گھروں پر محفوظ کر دیے گئے تھے۔
بعدازاں سال 2001 میں یہ تمام ریکارڈ افغانستان جیولوجیکل سروے کے ڈائریکٹریٹ کے حوالے کیا گیا۔اس طرح 2004ئ امریکی جیولوجیکل سروے (یو ایس جی ایس ) اور افغان جیولوجیکل سروے (اے جی ایس ) کی مشترکہ کوششوں سے یہ ریکارڈ کھنگالنے کے بعد دنیا کو معلوم ہوا کہ افغانستان میں لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں۔سال 2007میں زیرِ زمین ذخائر کا کھوج لگانے کے لیے برٹش بمبر کے ذریعے زیرِ زمین معدنیات کا سہ طرفی ریکارڈ جمع کیا گیا۔ 2009 میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان کی ایما پر ایک ٹیم عراق سے افغانستان پہنچی اور ان معدنی ذخائر کے حوالے سے رپورٹ مرتب کرکے سابق افغان صدر حامد کرزئی کو پیش کی گئی۔ اس رپورٹ میں لیتھیم کے ذخائر کا خصوصی جائزہ پیش کیا گیا تھا۔سال 2010میں افغان اور امریکی ماہرین نے اس کام کو مزید آگے بڑھایا اور 2010 میں افغانستان کے 34 صوبوں میں 24 مختلف مقامات کی نشاندہی کی گئی جہاں معدنیات کی بہتات تھی اور معلوم ہوا کہ کئی صوبوں میں لیتھیم کے ذخائر بھی موجود ہیں۔
انہی رپورٹس کی روشنی میں چین نے سابق افغان حکومت کے ساتھ مل کر کئی معاہدے کیے جن میں سے ایک معاہدہ افغان صوبے لوگر میں تانبے کے ذخائر پر کام کا تھا۔ 2008 میں دو چینی کمپنیوں نے یہ معاہدہ تین ارب ڈالرکے عوض 30 سال کے لیے کیا تھا۔اس خطے میں معدنی وسائل پر کام کرنے والےجیولوجسٹ ڈاکٹر یاسین کہتے ہیں اگر لیتھیم کو اکیسویں صدی کا سونا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ کیوں کہ گھر کے برتنوں سے لے کر جہاز تک اور انسانی دل میں پیس میکر سے لے کر موبائل لیپ ٹاپ بیٹریز تک ہر چیز میں لیتھیم کی ضرورت ہے۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دنیا میں مشینوں کی طاقت یعنی بیٹری، لیتھیم کے بغیر ناممکن ہے اور اب تو گاڑیاں بھی چارجنگ بیٹری سے چلتی ہیں اور اس میں لیتھیم کا استعمال کلیدی ہے۔دیکھا جائے تو مستقبل میں پیٹرول سے زیادہ لیتھیم کی ضرورت پڑنے والی ہے۔