واشنگٹن:یوں تو چین میں جب سے شی جن پنگ بر سر اقتدار آئے ہیں چینی فوج مزید سفاک اور ظالم ہو گئی تھی لیکن اب اس کے توسیع پسندانہ عزائم بھی عروج پر ہیں۔ اسی حوالے سے امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے چین کی اس بڑی سازش کا انکشاف کیا ہے کہ چین دنیا بھر میں اپنے فوجی اڈے بنا رہا ہے ۔ فی الحال ابھی تک صرف ایک فوجی اڈے کی تصدیق ہوئی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع نے کہا کہ چین اپنی بحریہ، فضائیہ، فوج کی مدد کے لیے اضافی سہولیات فراہم کرا رہا ہے۔
پینٹاگون کے حکام نے کہا کہ چین پہلے ہی اپنی افواج کی مدد کے لیے اضافی فوجی اڈے اور رسد کی سہولیات فراہم کرانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ پیپلز لبریشن آرمی ( پی ایل اے) دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے۔ پی ایل اے میں تقریبا 20 لاکھ فوجی ہیں۔ حالیہ میڈیا رپورٹس نے ممکنہ چینی فوجی اڈوں کے لیے استوائی گنی اور متحدہ عرب امارات(یو اے ای) پر توجہ مرکوز کی ہے۔ دسمبر کے اوائل میں میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ چین استوائی گنی میں اپنا پہلا فوجی اڈہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ چینی ساختہ تجارتی بندرگاہ باٹا میں فوجی اڈہ بنانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔
امریکی فوج کی افریقہ کمانڈ کے کمانڈر جنرل ا سٹیفن ٹاو¿ن سینڈ نے اپریل میں کہا تھا کہ چین کی طرف سے سب سے بڑا خطرہ افریقہ کے بحر اوقیانوس کے ساحل پر موجود اس کی بحری تنصیبات سے ہوگا۔ ا نہوںنے کہا تھا، میں ایک بندرگاہ کی بات کر رہا ہوں جہاں وہ ہتھیاروں کے ساتھ دوبارہ حملہ کر سکتے ہیں اور بحری جہازوں کی مرمت کر سکتے ہیں۔ اس سے قبل امریکہ سے انتبا ملنے کے بعدابوظہبی سے 80کلو میٹر شمال میں قائم خلیفہ کی کارگو بندرگاہ پر تعمیراتی کام روکنا پڑا تھا۔ چین پر الزام تھا کہ وہ متحدہ عرب امارات کو بتائے بغیر وہاں خفیہ طور پر فوج کے اڈے بنا رہا ہے۔
سال 2018 میں متحدہ عرب امارات اور چین کے درمیان سی او ایس سی او شپنگ پورٹ ابوظہبی ٹرمینل کو اپ گریڈ کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے۔یہ بندرگاہ الدفرہ ایئر بیس اور جیبل علی دونوں کے قریب ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین کمبوڈیا میں بھی فوجی اڈے بنا رہا ہے۔ حال ہی میں کمبوڈیا نے ریم نیول بیس پر امریکی ساختہ دو عمارتوں کو گرا دیا تھا۔ کمبوڈیا کے وزیر دفاع نے بعد میں تصدیق کی کہ چین انفراسٹرکچر کو بڑھانے میں مدد کر رہا تھا۔ حال ہی میں وال اسٹریٹ جنرل نے الزام لگایا تھا کہ کمبوڈیا نے چین کو بحری سہولیات فراہم کرنے کے لیے 30 سالہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ تاہم کمبوڈیا کی حکومت نے اس کی تردید کی تھی۔