جنیوا:(اے یو ایس)نیٹو کے سکریٹری جنرل نے چین کو ایک ایسی ”ابھرتی ہوئی طاقت” قرار دیا جس کی”قدریں یورپ سے مشترک نہیں” ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ بیجنگ کا عروج ٹرانس۔اٹلانٹک تعلقات میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔مغربی دفاعی اتحاد، ناٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کے پاس ایسا کوئی آسان راستہ نہیں ہے کہ وہ چین کے عروج کو نظر انداز کر سکے۔
اسٹولٹن برگ کا کہنا تھا ”چین ہمارے انتہائی قریب تک پہنچتا جا رہا ہے اور ہمارے اہم انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ہمارے علاقائی اتحاد کے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم چین کے عروج کی وجہ سے پیدا ہونے والے سکیورٹی مضمرات اور طاقت کے عالمی توازن میں ہونے والی تبدیلی کو نظر انداز کر سکیں۔”نیٹو کے رہنما نے اسی کے ساتھ متنبہ کیا کہ چین اور ہماری قدریں مشترک نہیں ہیں۔انہوں نے کہا”آپ سب د یکھ رہے ہیں کہ وہ ہانگ کانگ میں کس طرح کا سلوک کر رہے ہیں۔ وہ اپنے ہی ملک میں اپوزیشن کو کس طرح کچل رہے ہیں اور قانون پر مبنی نظم کو کس طرح نظر انداز کر رہے ہیں۔”اسٹولٹن برگ کا تاہم کہنا تھا کہ اس کے باوجود چین کے ساتھ باہمی تعلقات ”شمالی امریکا، امریکا اور یورپ کے ساتھ تعلقات کا ایک نیا باب شروع کرنے کا منفرد موقع” فراہم کرتے ہیں۔پیر کے روز امریکا، یورپی یونین اور برطانیہ نے بیجنگ پر ایغور اقلیتوں کے ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتے ہوئے بیجنگ پر پابندیاں عائد کردیں۔
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ناٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔ ناٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔ناروے کے سابق وزیر اعظم جینس اسٹولٹن برگ نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ نے ‘ٹرانس اٹلانٹک اتحاد کے حوالے سے انتہائی مضبوط عہد بندی‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔ان کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب نیٹو کے وزرائے خارجہ کی برسلز میں میٹنگ ہونے والی ہے جس میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی شرکت بھی متوقع ہے۔جو بائیڈن انتظامیہ کا موقف سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس موقف سے یکسر مختلف ہے جس میں انہوں نے ایک بار سے زائد مواقع پر نیٹو اتحاد سے الگ ہوجانے کی کھلی دھمکی دی تھی۔اسٹولٹن برگ نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا شدہ چیلنجز اور ایک نئی سرد جنگ کے خدشات سمیت متعدد امورپربات چیت کی۔
