China is escalating its punishment diplomacyتصویر سوشل میڈیا

بیجنگ: صدر شی جن پینگ کی جرمن چانسلر اینگیلا میرکل سے ملاقات سے محض دو روز قبل چین نے جرمنی سے خنزیر کا گوشت درآمد کرنا بند کر دیا۔

اس کے پس پشت کار فرما محرک افریقی سوائن فلو سے،ایسا مرض جو چین میں پہلے ہی سے پھیلا ہوا ہے، محض ایک جرمن جنگلی سور کی موت واقع ہوجانا بتایا جا رہا ہے ۔ تاہم کچھ تجزیہ کاروں نے اس کا خاص تجزیہ کیا ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ چین کی جارحانہ تجارتی چال کی ایک نئی مثال ہے۔جو کہ سیاسی دانشمندی کی چینی زبان کا وہ پہلو ہے جس سے کئی ممالک کے سا تھ تعلقات پر غالب آنے میں مدد ملی ہے۔ اس جبر اور زبردستی کا عوامی سطح پر شاذ و نادر ہی اعتراف کیا گیا ہے۔ جہان تک جرمن سور کے گوشت کا تعلق ہے تو چین نے صاف کہہ دیا ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چین نے یہ درآمد بند کی یا مال تجارت کی تحقیقات شروع کی۔

سور کے گوشت کی درآمد در اصل جرمنی کو اس بات کا انتباہ ہے کہ وہ چین کو تنہا کرنے کے لیے امریکہ کی بازار کاری تشہیری تحریک کا حصہ نہ بنے اور چین کے حقوق انسانی کے ریکارڈ پر تنقید بند کرے۔آسٹریلیا نے بہت کار آمد مثال پیش کی۔ کچھ عرصہ تک چین آسٹریلیا تعلقا ت منجمد رہے لیکن جب آسٹریلیا نے یہ کہا کہ کورونا وائرس کے آغاز اور اس سے ابتدا میں ہی نمٹنے کے حوالے سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کی وکالت کی تو اپریل میں یہ چین آسٹریلیا تعلقات سرد خانے میں جا گرے۔

چند ہفتوں کے اندر چین نے آسٹریلیا کے متعدد بڑے سپلائروں سے برانڈ اور سرٹی فیکیٹ تقاضوں کے باعث مویشیوں کا گوشت درآمد کرنا بند کر دیا۔اس نے آسٹریلیائی جو پر زبردست ٹیکس، آسٹریلیائی شراب درآمدات کی تحقیقات اور اپنے شہریوں کو آسٹریلیا کے سفر سے متعلق انتباہ جیسی چالیں چلنا شروع کر دیں۔ آسٹریلیا سے پہلے امریکہ کی درخواست پر 2018کے اواخر میں چی مواصلاتی آلات اور صارفی الیکٹرانکس کا سامان تیار کرنے والی دیو پیکر کمپنی ہوواوے کے چیف مانیٹری افسر مینگ وانژو کی گرفتاری کے بعد کناڈا بھی چین کے عتاب کا شکار ہو چکا ہے۔

قومی سلامتی قانون کے تحت دو کناڈیائی شہریوں کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ چین نے سفری انتباہ بھی جاری کر دیا اور نا مناسب تصدیق اور مہلک اجزاءکے بہانے کناڈیائی سویا بین ،روغن کنولہ اور گوشت کی درآمد بند کر دی۔علاقائی تنازعات بڑھ جانے کے باعث فلپائن اور جاپان کو، چینی حقوق انسانی ستاویزپر تنقید کرنے کی وجہ سے سویڈن کو، دلائی لامہ کے دورے کے باعث یوکے اور منگولیا کو اور ایک امریکی ساخت میزائل ڈیفنس سسٹم کی تنصیب کے باعث جنوبی کوریا کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

چین کی یہ چالیں کامیاب ہوتی نظر آئیں ۔سب سے پہلی کامیابی ناروے تھی۔ چین نے 2010میں داخل زنداں چینی باغی لیو شیاؤبو کر نوبل امن انعام دیے جانے پر ناروے سے دوری اختیار کر لی اور سالمن مچھلی کی درآمد بند کر دی۔سزا کے کلئی سالبعد اقوام متحدہ میں ناروے کا ووٹنگ پیٹرن بدل گیا اور اس کا پلڑا چین کے حق میں جھک گیا۔

آرکٹک کونسل میں چین کے مشاہد کی حمایت کی۔اس کے رہنماؤں نے وعدہ کیا کہ وہ دلائی لامہ سے نہیں ملیںگے اور عہد کیا کہ ایسا کوئی کام نہٰں کریں گے جس سے چین کی ”ون چائنا“ کووریج کو کوئی زک پہنچے۔اس وقت چین کا دعویٰ ہے کہ اس کے نتاجرتی ساتھی 130بین الاقوامی مقامات تک پھیلے ہوئے ہیں اور چینی کہاوت ’ بندروں کو خوفزدہ کرنے کے لیے مرغ کو ذبح کر دو‘ کے مصداق اس کے اثرات یہ مرتب ہوئے کہ دوسرے خود بخود اس کے قابو میں آگئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *