نئی دہلی: چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے حال ہی میں یہ اعلان کیا کہ جارحیت اور توسیع پسندی کبھی بھی چینی قوم کی سرشت میں نہیں رہی ۔یہ کافی حد تک حیران کن ہے کہ انہوں نے اس قدر سنجیدگی سے یہ بات کہہ دی اور ذرا بھی لاج نہیں آئی۔ بلا شبہ جارحیت اور توسیع پسندی موروثی یا جنییاتی خصلت نہیں ہوتی لیکن وہ صدر شی جن پینگ کی حکومت کی تعریف ضرور بیان کرتے ہیں۔
شی ،جنہوں نے کافی حد تک ماؤزے تنگ کی توسیع پسندی ذہنیت کو اپنایا ہے ،معاون دریا نظام کے ،جسے چینی شہنشاہ معاون ریاستوں پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے، جدید تصور پر عمل آوری کی کوشش کر رہے ہیں۔
شی کے لیے کوویڈ19-، جس نے مہینوں دنیا بھر کی حکومتوں کو نہایت مصروف رکھا، اس ایجنڈے پر تیزی سے آگے بڑھنے کا نادر موقع تھا۔لہٰذا اپریل اور مئی میں انہوںنے پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کو ہندوستان کے برفیلے سرحدی سلسلہ میں واقع لداخ خطہ میں ، جہاں اس نے زبردست قلعہ بندی سے کیمپ قائم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے،مکاری سے در اندازی کی ہدایت کی۔
لیکن یہ ایسا شاطر منصوبہ نہیں تھا جیسا کہ شی نے شاید سوچا تھا۔ چین کی علاقائی فضیلت سے اپنے دفاع میں مورچہ بندی کر کے دفاعی تعاون میں گہرائی پیدا کرنے والی ہند بحرالکاہل طاقتوں نے پوری قوت کے ساتھ چینی فوج کو پیچھے ڈھکیل دیا۔اس میں چین کا طاقتور حریف امریکہ بھی شامل تھا جس کی وجہ سے دو طرفہ اسٹریٹجک ٹکراؤ ، جس میں تکنالوجیکل، اقتصادی، سفارتی اور فوجی معاملات شامل ہیں، بڑھا دیا۔ اب بین الاقوامی سطح پ تنہا ہوجانے اور فراہمی میں رکاوٹوں کا سایہ چین پر پڑنا شروع ہو گیا ہے جس نے شی کو معدنی وسائل اور زرعی پیداوار کا بے پناہ ذخیرہ کرنے کے منصوبوں کا اعلان کرنے پر مجبو رکر دیا۔لیکن شی کی ہمالیائی سرحد پرہندوستان کے بارے میں غلط اندازہ لگا لیا گیا جس نے اب چین کے تئیں خوش کرنے کی پالیسی کو خیرباد کہہ دیا ہے۔اس میں کوئی حیرت نہیں کہ چین پی ایل اے سے در اندازی کراتا رہا اور وہ اسے دفاعی کارروائی کا نام دیتا رہا۔
گذشتہ ماہ شی نے پی ایل اے کے افسران باالا سے کہا تھا کہ ہمالیائی خطہ میں سرحدی دفاع کو مضبوط تر کیا جائے اور سرحدی تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔لیکن ہندستان برابر کا جواب دینے کو تیار بیٹھا تھا ۔جون میں پی ایل اے نے گھات لگا کر حملہ کیا اور لداخ کی گلوان وادی میں گشت کررہے ہندوستانی فوجیوں کو بے خبری میں گھیر لیا۔دو بدو لڑائی ہوئی جس میں متعدد چینی فوجی مارے گئے۔
جو کہ چار عشروں سے زائد مدت میں اقو م متحدہ کی امن فوج کی کارروائیوں سے ہٹ کر ہونے والی کسی کارروائی میں پی ایل اے کا پہلا فوجی جانی نقصان تھا۔شی اس نتیجہ سے بوکھلا اٹھے اوراس جھڑپ میں جس میں ہندوستان کے بھی20فوجی شہید ہو ئے، چین نے اپنے ہلاک فوجیوں کی اصل تعداد کا اعتراف کرنے سے انکار کر دیا۔
کسی قسم کی حیرت کے بغیر سچائی یہ ہے کہ چین کسی فوجی جھڑپ میں چین ہندوستان پر غلبہ پانے کی طاقت نہیں رکھتا۔اور ہندوستان اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ اب دوبارہ اسے غفلت میں نہیں مارا جا سکتا۔اب اس نے بھی ہمالیائی سرحد پر چینی فوجی موجودگی کی طرح اپنی فوجی طاقت بھی اس کے مقابلہ کی کردی ہے اور سامان رسد کی فراہمی اور تازہ کمک بھیجنا آسان بنانے کے لیے نقل و حمل کا پورا لاجسٹک نیٹ ورک فعال کر دیا ہے ۔
چین پر ایک اور کاری ضرب اس وقت لگی جب ہندوستان کی خصوصی فوجی دستوں نے حال ہی میں پنگ گونگ جھیل کے جنوبی ساحل پر کلیدی چینی تعیناتی کو نظر انداز کر کے جنگی نوعیت سے اہم پہاڑی مورچوں پر اپنے فوجی تعینات کر دیے۔پی ایل اے کے برعکس ،جو لا وارث چھوڑے گئے سرحدی علاقوں پر ناجائز قبضہ کو ترجیح دیتی ہے،ہندوستان نے پی ایل اے کے زبردست جماو¿ کے درمیان عین چین کی ناک کے نیچے کارروائی کی ۔
چین کے لیے یہ شرمناک نہیں ہے کہ اس کارروائی میں پیش پیش رہنے والی اسپیشل فرنٹیر فورس( ایس ایف ایف) تبتی پناہ گزینوں پر مشتمل تھی ۔اور جو تبتی فوجی اس کارروائی کے دوران بارودی سرنگ پھٹنے سے ہلاک ہوئے ان کے آخری رسوم پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ادا کیے گئے ۔ہندوستان کا یہ واضح پیغام صاف تھا: چین کا تبت پر ، جو ماو¿ کی حکومت کے ذریعہ 1951 میں قبضہ تک ہندوستان اور چین کو الگ رکھا ہوا تھا، دعویٰ اتنا مضبوط نہیں تھا جتنا وہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ہے۔ تبتی لوگ چین کو ایک ظالمانہ جابرانہ طور پر قابض طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں ، اور جو غاصب سے لڑنے کے متمنی تھے وہ ہ ماو¿ کی ہندوستان کے ساتھ 1962 کی جنگ کے بعد تشکیل دی جانے والی ایس ایف ایف میں شامل ہونے آگئے۔
چین کا ہندوستان کے وسیع ہمالیہ سرحدی علاقوں سے متعلق دعویٰ تبت سے اس کے مبینہ تاریخی روابط کی بنیاد پر ہے۔ اگر چین محض تبت پر قبضہ کر رہا ہے تو وہ ان سرحدی علاقوں پر کس طرح اپنے اقتدار اعلیٰ کا دعویٰ کرسکتا ہے؟کسی بھی طور پر شی کی ان علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش جو چین کے نہیں ہیں شروع لکرنے سے زیادہ اسے بار آور کرنا زیادہ مشکل ثابت ہواہے جیسا کہ بحیرہ جنوبی چین میں چین کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے شی بے ترتیب یا دوغلے پن والی جنگ کو ترجیح دیتا ہے جو نفسیاتی اور میڈیا ساز باز ، غیر اطلاعاتی، روایتی اور دھوکے والے ہتھکنڈوں کو نفسیاتی اور میڈیا میں ہیرا پھیری ، ڈس انفارمیشن ، لاءفیئر اور جارح سفارت کاری پر مشتمل ہوتی ہے۔
لیکن جب شی نے گولی چلائے بغیر ہی جنوبی بحیریہ چین کا جغرافیائی سیاسی نقشہ تبدیل کردیا تو واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ یہ چین کی ہمالیائی سرحد پر کامیاب نہیں ہو گا۔ اس کے بجائے شی کی سوچ نے چین اور ہندوستان کے تعلقات پ کو،جو علاقائی استحکام کے لئے اہم ہے ، چاقو کی دھار پر رکھ دیا ۔ شی نہ پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کھلی جنگ چاہتے ہیں کیونکہ اس جنگ میں انہیں وہ فیصلہ کن فتح حاصل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے جس کی انہیں سرحدی جھڑپ میں ہزیمت اٹھانے کے بعد خراب ہونے والی ساکھ بحال کرنے کے لیے ضرورت ہے ۔
چین کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہوسکتی ہے لیکن ہندوستان کی بھی فوجی طاقت کم نہیں ہے وہ بھی زبردست ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان کے فوجی دستوں کو اونچائی والے علاقوں پر چھوٹے ٹکراو¿ کا تجربہ ہے جبکہ اس کے برعکس پی ایل اے کا ویتنام پر 1979 کے تباہ کن حملے کے بعد سے کوئی جنگی تجربہ نہیں ہے۔ اس کے پیش نظر ہمالیائی خطہ میں چین اور ہندوستان کی جنگ شاید فریقین کو زبردست نقصان کے ساتھ تعطل کا شکار ہوجائے گی ۔شی اس خوش فہمی میں نظر آتے ہیں کہ وہ ہندوستان کو آسانی سے نیچا دکھا سکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب کوویڈ 19 کے باعث ہندوستانی معیشت بدترین گراوٹ سے دوچار ہے شی نے ہندوستان کو وسائل کا ایک بڑا حصہ قومی دفاع کی طرف موڑنے پر مجبور کردیا۔
دریں اثنا ، چین کے گہرے دوست پاکستان کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں نے ہندوستان کے لئے جنگ کے دو محاذ کھلنے کا امکان کردیاہے۔ چونکہ کچھ چینی فوجی تجزیہ کاروں نے مشورہ دیا ہے کہ شی عنقریب ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے حوالے سے امریکہ کی مصروفیت کا فائدہ اٹھا کر جنگ چھیڑے بغیر ہندوستان پر تیزی سے محدود حملہ کر کرسکتا ہے۔لیکن یہ امکان کم ہی لگتا ہے کہ ہندوستان چینی دباو¿ میں آجائے گا
