تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ توسیع شاہراہ ریشم (بی آر آئی) کے تحت چین کے سامراجیت اور توسیع پسند ایجنڈے کی علامت و پرچم بردار چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) جلد ہی” بھیانک غلطی “ پراجکٹ بن جائے گا۔
اسرائیل کے موقر انگریزی روزنامہ یروشلم پوسٹ کے مطابق سی پیک پر لاگت کا ، جوجنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خود مختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل کر نے کے لیے ا یک بہت بڑے تجارتی منصوبہ کے تحت پاکستان میں زیر تعمیر ہے، ابتدا ئی تخمینہ 46بلین ڈالر لگایا گیا تھا جو اب بڑھ کر 87بلین ڈالر ہو گیا ہے اور ابھی اس کا صرف ایک چوتھائی حصہ ہی مکمل ہو پایا ہے۔
یروشلم پوسٹ نے بتایا ہے کہ سی پیک کا مقصد نقل و حمل کا جدید نیٹ ورک تیا ر کرکے پاکستان کے بنیادی ڈھانچہ کو تیزی سے جدید تر اور اس کی اقتصادیات کو مستحکم کرنا ہے۔تاہم حالیہ برسوں میں سی پیک نے ثابت کر دیا جھوٹی بنیاد پر ہے کہ کسی ملک کو خوشحالی کے لیے ایسے زبردست اقتصادی پراجکٹوں کی ضرورت ہے۔اس راہداری پر جو80بلین لاگت آرہی ہے اس کا 90فیصد پاکستان قومی قرضہ کی شکل میں ادا کرے گا۔پاکستان جانتا ہے کہ وہ چین کو قرضہ واپس کرنے کے قابل نہیں ہوگا اور رفتہ رفتہ اپنی ہی سرزمین پر اپنے اقتدار اعلیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
سی پیک پر خرچے، تجارتی عدم توازن، بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے مخالفت، گوادار بندرگاہ کے قریب رہائش پذیر عوام، اور اس سے براہ راست متاثر ہونے والے مقامی باشندوں کی مزاحمت جیسے معاملات کے پیش نظر زبردست تنقید یں کی جارہی ہیں۔ خیبر پختون خوا صوبائی اسمبلی نے سی پیک کے خلاف ایک قرار داد منظور کی ہے۔
گذشتہ ماہ پاکستان کے سابق سفیر متعین امریکہ حسین حقانی نے ایک بین الاقوامی آن لائن میگزین ’دی ڈپلومیٹ‘ میں اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ 62بلین ڈالر کی لاگت سے سی پیک کی تعمیر،جس میں کئی بنیادی ڈھانہ کے پراجکٹ شامل ہیں،پاکستان کی چین کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات برقرار رکھنے کی خواہش کا ہی نتیجہ ہے۔ نیز اس کی تعمیر ناکافی شفافیت کے دلدل میں پھنسی ہے۔
پاکستان کی فوج چین کے ساتھ پاکستان کے جوہری پروگرام میں مد د سمیت تسلسل سے اسٹریٹجک تعاون میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کے زیادہ مشروط اتحاد کے برعکس چین سے مناسب انداز اختیا کرتی ہے۔لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چین اب پاکستان میں اس کے عوام کی مدد کرنے نہیں بلکہ اقتصادی شکار کرنے کے لیے ہے ۔دریں اثنا ایک نیا قانونی معاملہ چین کے تعاقب میں ہے۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق چین پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں کوئی تعمیر نہیں کر سکتا کیونکہ یہ علاقہ قانونی طور پر ہندوستان کا ہے۔حتیٰ کہ اقوام متحدہ بھی یہ تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر پر 1948کی قرار داد کی رو سے یہ علاقہ ہندوستان کی ملکیت ہے۔دوسری جانب اکسائے چن بھی،جو ہندوستان کا حصہ ہے اورجس پر پاکستان نے غیر قانونی طور پر قبضہ کرنے کے بعد اسے چین کو ہدیہ کر دیا،ایک بڑی رکاوٹ ہے۔چین ہندوستان کی اجازت کے بغیر ،جو ہندوستان یقیناً نہیں دے گا، اس علاقہ میں نہ تو تعمیر کر پائے گا اور نہ ہی اس علاقہ کو گذرگاہ بنا سکے گا۔
مشرقی لداخ کے وادی گلوان میں حقیقی کنٹرول لائن (ایل اے سی) پر حالیہ جھڑپ کے دوران ہندوستان نے واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ اپنی حدود میں کوئی دراندازی نہیں کرنے دے گا اور دراندازوں سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔لہٰذا ،ماہرین کا کہنا ہے کہ، سی پیک بہت جلد فاش غلطی ثابت ہوگا اور پاکستان کو بل تھما دیا جائے گا اور ایک ایسا غیر معیاری بنیادی ڈھانچہ اسے دے دیا جائے گا جو کبھی بھی اس کے کسی مصرف کا نہیں ہوگا۔