China shift its focus from Pakistan and Lanka to South East Asia region and Africaتصویر سوشل میڈیا

نئی دہلی: چین نے اپنی توجہ جنوبی ایشیا سے ہٹا کر جنوب۔ مشرقی ایشیا میں لگانی شروع کردی ہے۔ دراصل چین پہلے ہندوستان کو گھیرنے کیلئے اس کے پڑوسیوںکو اپنے پالے میں ملاناچاہتا تھا۔اس کیلئے چین نے ان ممالک میں اپنے مہتوا کانشی پروجیکٹ بی آر آئی کے تحت بھاری سرمایہ کاری بھی کی۔ اس بہانے چین نے نیپال ، بنگلہ دیش ، سری لنکا ، پاکستان ، مالدیپ اور افغانستان میں کئی بڑے بڑے پروجیکٹ بھی چلائے۔لیکن ایک وقت تک بھاری خرچ کے باوجود جب چین کو ان ممالک میں کی گئی سرمایہ کاری کا کوئی معاشی فائدہ نہیں ملا تو چین نے اپنی توجہ اس طرف سے ہٹا لی۔ایسا نہیں ہے کہ چین کو صرف معاشی نقصان ہو رہا تھا جو چین نے جنوبی ایشیا سے اپنی توجہ ہٹائی۔

سری لنکا اور پاکستان میں چین نے بڑی چالاکی سے دوبندر گاہوں کو 99 سال تک پٹے پر لے لیا۔اس کے لئے چین نے پہلے ان ملکوں کے سیاستدانوں کو رشوت دے کر اپنی طرف ملایا پھر ان ملکوں میں بھاری سرمایہ کاری کی۔جتنے قرض کی انہیں ضرورت تھی چین نے دیا لیکن اونچی سود شرحوںپر قرض کی شرطیں صاف نہیں کیں۔اس وجہ سے یہ دیش چین کے قرض جال میں پھنس گئے۔ اس وقت چین نے ان ملکوں کے دونوںبندر گاہ ، گوادر اور ہمبن ٹوٹا کو پٹے پر لے لیا۔ اس کی وجہ سے ان دیشوں میں چین کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہونے لگے۔جس کی وجہ سے چینی پروجیکٹس کا یہاں چلنا مشکل ہوگیا۔

پاکستان اور سری لنکا میں لوگوںکو پتہ چل گیا کہ چین انہیںترقی کا جھانسہ دے کر انہیںلوٹنے آیا ہے۔نیپال اور بنگلہ دیش میں بھی چین کے حوالے سے لوگوں میں زبردست غصہ ہے۔ نیپال میں بھی چینیوں اور نیپالیوں کے درمیان چھٹ پٹ جھڑپیں ہو چکی ہیں وہیں میانمار پوری طرح چین کے قبضے میں چلا گیا ہے۔سری لنکا کے راشٹرپتی گوٹا بایا راج پکشے نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بیجنگ اب اپنی توجہ جنوبی ایشیا سے ہٹا کر جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک اور افریقہ پر لگا رہا ہے۔گوٹا بایا نے مزید بتایا کہ جنوب ایشیائی ملک معاشی بدحالی میں ہیں۔ اس لئے چین اب اس خطے میں پہلے جیسی دلچسپی نہیں لے رہا ہے۔ حالانکہ جب راج پکشے بندھو چین کی گود میںجاکر بیٹھنے والے تھے تب ہندوستان نے انہیں آگاہ کیا تھا۔لیکن اس وقت ان کی آنکھوں پر چین کا سرور چڑھا تھا۔ سری لنکا چین سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا قرض نہیں لے سکا۔ جب سری لنکا نے چین سے ضروری سامان خریدنے کیلئے ایک ارب ڈالر کے قرض کی مانگ کی۔تو انہیں چین سے یہ سننے کو ملا کہ چین سری لنکا کی مدد کرے گا لیکن انہیں یہ پسند نہیں ہے کہ پرانا قرض چکانے کیلئے کوئی نیا قرض لے۔

یعنی چین نے سری لنکا کی مدد تو نہیں کی بلکہ اسے حقارت بھرا ایک پیغام ضرور سنادیا۔اور سری لنکا کو اس کی اوقات یاد دلا دی۔حالانکہ سری لنکا کی ابھی جو حالت ہے اس کیلئے چین کافی حد تک ذمہ دار ہے۔ چین کی تازہ سرگرمیوں سے ایسا لگتا ہے کہ چین نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرتے ہوئے اب اپنا فوکس جنوب۔ مشرقی ایشیائی ممالک کی طرف کیا ہے۔جس میں فلپائن، ویتنام اور کمبوڈیا آتے ہیں۔ اور چین کی توجہ افریقہ کی طرف بھی ہے۔اس کے ساتھ ہی چین کی توجہ پاکستان کی طرف سے بھی ہٹ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی چین نے جتنے پروجیکٹس میں پیسہ لگایا تھا وہ بھی اب پاکستان میں نہیں آرہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چین کو جوکچھ حاصل کرنا تھا وہ اس نے اس پورے خطے سے حاصل کرلیا ہے اور اب وہ نئی چراگاہ کی تلاش میں جنوب مشرقی ایشیا اور معدنیات سے بھرے افریقی جزیروں کا رخ کر رہا ہے۔حالانکہ افریقہ میںبھی چین کی راہ آسان نہیں دکھائی دیتی۔ وہاں پر بھی لوگ چین کی لوٹ کھسوٹ سے اچھی طرح واقف ہیں اور وہاں کی عوام بھی چین کے خلاف ہے۔ پچھلی دہائی میں چین نے سب سے زیادہ پیسہ سری لنکا اور پاکستان میں لگایاتھا۔اس وقت چین نے بڑے بندر گاہ ، بڑے بجلی پروجیکٹس اور دوسرے بنیادی پروجیکٹس میں پیسے لگائے تھے۔ حالیہ دنوں میں چین پاکستان کو قرض کی نئی کھیپ جاری کرنے میں اپنا وقت لے رہا ہے۔تو وہیں سری لنکا کو نیا قرض دینے میں جھجک رہا ہے۔

ویسے اس وقت آئی ایم ایف دونوں ملکوں کو قرض دینے کے معاملہ پر بات کررہا ہے۔ حالانکہ چین نے سری لنکا کے سامنے یہ کہتے ہوئے چارہ پھینکا ہے کہ چین سری لنکا کی مدد کیلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بات ضرور کرے گا۔وہیں راج پکشے امریکہ ، بھارت ، جاپان اور آسٹریلیا سے بھی مدد مانگنے پر غور کررہے ہیں۔ کواڈ ممالک سے مدد مانگنا چین کو پریشان کرسکتا ہے۔ کیونکہ یہاں پر چین اکیلا ہے اور چار ممالک کا گٹھ جوڑ اگر سری لنکا کی مدد کرے گا تو چین کو سری لنکا کے اندر کام کرنے میں پریشانی ہو سکتی ہے۔وہیں چین نے سری لنکا کے کواڈ ممالک کے پاس مدد کیلئے جانے پر خود ہی سری لنکا کو تھوڑی راحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چین کو قرض آرام سے لوٹاسکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *