China slowly retreating from Pakistan’s Belt and Roadفائل فوٹو

پاکستان کی فوج چینی سرمایہ سے تعمیر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا، جو ریلویز، سڑکوں، بندرگاہوں اور چین کے عالمی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے لیے اہم خصوصی اقتصادی زون سے آراستہ 60بلین امریکی ڈالر کا بنیادی ڈھانچہ تعمیرمنصوبہ ہے، تقریباً مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے والی ہے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے بل سے ملک کی طاقتور فوج کی اس پراجکٹ اور اس سے وابستہ کروڑوں بلین ڈالر کے ٹھیکوں پر مضبوط گرفت ہو جائے گی۔ فوج کے حوالے کرنے کے اس اقدام کو کچھ حلقوں میں چین کو یہ دوبارہ یقین دہانی سے تعبیر کیا جارہا ہے کہ بنیادی ڈھانچے کے پراجکٹوں پر کام کر رہے چینی انجینیروں اور دیگر عملے پر دہشت گردانہ حملوں کے درمیان اس کی سرمایہ کاری زیادہ محفوظ و مامون رہے گی۔ پاکستان کا یہ اقدام ان بڑھتے اشاروں کے درمیان کہ چین پاکستان سے کیے گئے مالی وعدوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے ، کیا گیا ہے۔

امریکہ میں بوسٹن یونیورسٹی کے محققین کے جمع کردہ اعداد و شمار کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے زیر انتظام چائنا ڈیولپمنٹ بنک اور ایکسپورٹ امپورٹ بینک آف چائنا سے ملنے والا قرض جو2016میں 75بلین ڈالر تھا اس میں تخفیف کر کے گذشتہ سال محض4بلین ڈالر کر دیا گیا۔2020 میں یہ رقم مزید گر کر تقریباً3بلین ڈالر ہو گئی۔بوسٹن یونیورسٹی کی ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ اخراجات میں کمی چین کی اپنے ایک ٹریلین ڈالر کی لاگت والے بی آر آئی کے لیے نام نہاد” از سر نو وضع کردہ حکمت عملی “ہے جو ابہام، بدعنوانی اور قرض کے جال میں پھنسنے اور منفی سماجی و ماحولیاتی اثرات کا باعث بننے والے غریب ممالک کو بھاری قرضے سمیت اقتصادی ڈھانچہ کی خامیوں کے لیےزبردست ہدف تنقید بنی ہوئی ہے۔2013میں شروع کیا گیا بی آر آئی چینی صدر شی جین پینگ کا ایشیا کو براستہ زمینی و سمندری تجارتی نیٹ ورک سے افریقہ اور یورپ سے جوڑنا اور شاید زیادہ اہم مشرق وسطیٰ سے زیادہ تر سمندری راستے سے چین کے جنگی نوعیت سے زیادہ اہم ایندھن کی درآمدات کے لیے نئے راستے پیدا کرنا ہے۔سی پیک چین کے بعد میں وضع کی گئی حکمت عملی ہے جس کا مقصد ایندھن کی کھیپ بھیڑ بھاڑ والی آبنائے ملاکا کی ،جس کے بارے میں دفاعی تجزیہ کارپیش گوئی کرتے ہیں کہ جنگ ہونے کی صورت میں امریکہ چین کی اقتصادیات کا گلا دبانے کے لیے پہلے ہی ناکہ بندی کر سکتاہے، چھوڑتے ہوئے براستہ پاکستان چین لانے کے لیے متبادل سڑک راستہ مہیا کرنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ چینی قرضے میں تخفیف کے سی پیک پر کیا اثرات مرتب ہو تے ہیں، تاہم فنڈ کی قلت سے بہت سے متعلقہ اہم پراجکٹوں پر کام اب رک گیا ہے یا بہت سست ہے۔ سی پیک کے اعلان کردہ122پراجکٹوں میں سے رواں مالی سال کے تیسرے چوتھائی تک محض32پراجکٹ ہی مکمل ہو سکے ہیں۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ چین کی دنیا بھر کو قرضے دینے کی حکمت عملی میں تبدیلی اور پاکستان میں دیو پیکر منصوبے سے بظاہر پس قدمی کے پس پشت اہم اسباب میں سے ایک امریکہ کے ساتھ چین کی تجارتی جنگ ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ سی پیک میں شامل چینی کمپنیوں کی خاص طور پر توانائی پراجکٹ میں دستاویزی بدعنوانی نے چینی مالی حکام کو پاکستان کو قرضہ میں تخفیف پر مجبور کر دیا۔سیکورٹی اینڈ ایکس چنج کمیشن آف پاکستان کی حالیہ انکوائری سے پاور سیکٹر میں 1.8بلین ڈالر کی ہیرا پھیری کا پتہ لگا ہے۔جس میں سی پیک میں شامل 16کمپنیاں جن میں چینی کمپنیوں کی تعداد زیادہ ہے، جوبے ضرورت سہارا قیمتیں وصول کر رہی ہیں۔ جس سے قومی خزانے کو بھاری مالی خسارہ ہو رہا ہے۔دریں اثنا بلوچستان میں انتہاپسندوں نے سی پیک پراجکٹوں اور ان پراجکٹوں پر کام کر رہے چینی عملہ پر دہشت گردانہ حملے شروع کر دیے ہیں جس سے پراجکٹوں کو سیاسی خطرات و سیکورٹی خراجات بڑھ گئے ہیں۔پاکستان کا سی پیک کا فوج کو زیادہ کنٹرول دینا چین کے بڑھتے سیکورٹی خدشات کو دور کرنے کی واضح کوشش ہے۔ پاکستان کی وزارت منصوبہ بندی میں ایک اعلیٰ ذریعہ نے ایشیا ٹائمز کو اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایاکہ چین کثیر بلین ڈالروں سے ریلوے کی جدت کاری(ایم ایل1-) سمیت سی پیک پراجکٹ کو آگے بڑھانے کے لیے چینی سرکاری کمپنیوں یا نجی اداروں کے علاوہ دیگر کمپنیوں کے ساتھ ایک نیا مشترکہ سرمایہ کاری مکینزم کے قیام کے لیے پاکستان کو اجازت دینے کے لیے اصولی طور پر رضامند ہو گیا ہے۔ذریعہ نے کہا کہ ہمیں واقعتاً غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ضرورت ہے تاکہ 3.2بلین لاگت والی کراچی لاہور پشاور ریلوے لائن کی مرمت و جدت کاری اور ملک کے طول و عرض میں نصف درجن خصوصی اقتصادی زون سمیت عظیم سی پیک پراجکٹوں کے لیے فنڈ دیا جا سکے۔ پراجکٹ کو فنڈ بہم پیہنچانے میں چین کا پس و پیش سے کام لینے کے باعث 1872کلومیٹر طویل ایم ایل1- پراجکٹ کچھوے کی طرح رینگ رہا ہے۔علاوہ ازیں اپنے قرض کے بڑھتے بوجھ کے باعث پراجکٹ کی لاگت 8.2بلین سے گھٹا کر کر6.2بلین ڈالر کردینے کے حکومت پاکستان کے فیصلہ سے چین ناخوش ہے۔

چین کی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو جانے سے ٹاپ لائن سی پیک پراجکٹ پر کام میں سست رفتاری آجانے کا معاملہ اسلام آباد میں نئے چینی سفیر متعین پاکستان نانگ رونگ اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان گذشتہ ماہ ہونے والے تبادلہ خیال کے دوران بھی آیا تھا۔ قریشی نے ایسے موقع پر جبکہ پاکستان کوویڈ19-کے باعث اقتصادی بحران سے دوچار ہے سی پیک پراجکٹ کی جلد تکمیل کے لیے اقتصادی ضرورت پر زور دیا ۔انہوں نے ریلوے اور گوادار بندرگاہ میں کام کی، جہاں چین ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ، ایل این جی تنصیب کی تعمیر کر رہا ہے اور بندرگاہ پر بڑے جہازوں کے لنگر انداز کیے جانے کی سہولتوں کو جدید بنا رہا ہے، سست رفتاری کا خاص طور پرذکر کیا۔گذشتہ ماہ پاکستان ریلویز نے اپنے ریلوے نظام کی جدت کاری کے لیے عالمی سطح پر ٹینڈر طلب کرنے کے اشتہار دیے تھے۔ایک ریلوے ترجمان نے انکشاف کیا کہ 46جدید ترین مسافر ڈبے بین الاقوامی بولی سے حاصل کیے جائیں گے۔ دوسرے مرحلہ میں 184کوچز اسلام آباد کی کیریج فیکٹری میں تیار کیے جائیں گے۔گذشتہ ہفتہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے ، جو اب وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھالے ہوئے ہیں، مصری سفیر متعین پاکستان طارق ظاہروغ ریلویز کے ایم ایل 1-پراجکٹ میں سرمایہ کاری کے دستیاب مواقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے مشترکہ طور پر سرمایہ کاری کے امکان پر تبادلہ خیال کیا۔رشید نے کہا کہ پاکستان مصرکی کی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرے گا ۔ انہوں نے مصری سفیر کو کہا کہ وہ ریلوے پراجکٹ میں نجی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دیں۔ چین اور پاکستان دونوں ہی اسپیشل اکنامک زونز پر کام میں تیزی لانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاروں کی تلاش میں ہیں۔اس سے قبل چین غیر چینی کمپنیوں کو اسپیشل اکنامک زونوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے مدعو کرنے سے ہچکچا رہا تھا۔ لیکن اب مالی حالت خستہ ہوجانے کے باعث صورت حال بدل چکی ہے۔سی پیک کے مستقبل پر بظاہر چین کی نئی زیادہ دقیانوسی قرضہ پالیسی سے ہی نہیں بلکہ خود پاکستان کا حد سے زیادہ مقروض ہوجانے کے باعث ، جس سے ملک تیزی سے قرضہ بحران کی جانب جارہا ہے، بادل منڈلا رہے ہیں۔ پاکستان کا قرضہ جی ڈی پی شرح تک اب جی ڈی پی سے107%زائد ہے۔

لاہور میں واقع حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ایک تھنک ٹینک دی انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز (آئی پی آر)کے سینیئر رہنما ہمایوں اختر خان نے ایک حالیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ’ اصلاحات لانے میں حکومت کی ناکامی اور ناقص مالی انتظامی امور کی وجہ سے پاکستان قرض کے جال میں پھنس چکا ہے ۔”پاکستان کا قرضہ اور قرض کی ادائیگی باعث تشویش “ کے عنوان سے تحقیقی رپورٹ کو آئی پی آر نے یہ کہتے ہوئے مکمل کیاکہ ”ہم اپنی ہی غلطیوں سے قرض کے جال میں پھنسے ہیں ۔“ حکومت قرض کی ادائیگی کے لیے قرض لے رہی ہے جو اب تمام سیاسی پارٹیوں،تاجروں اور ماہرین کے لیے باعث تشویش ہے۔“کیا پاکستان کا سی پیک کا مکمل کنٹرول فوج کو سونپ دینا چین کو اس یقین دہانی کا اعادہ کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس کی سرمایہ کاریاں مزید محفوظ ہیں۔لیکن جو سامنے ہے وہ یہ ہے کہ چین بی آر آئی میں پاکستان کو 60بلین ڈالرکا قرضہ دینے سے پیچھے ہٹ رہا ہے ۔اور اس کے کیا اسباب ہیں وہ ابھی تک واضح نہیں ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *