چین میں جعلی کوویڈ ویکسین کی ضبطی کے بعد اعتماد بحالی کی کوششوں کے طور پر ترجیحی ٹیکہ کاری اسکیموں کے تحت تقریباً 20ملین چینیوں کو کویڈ 19-کی خوراک دی گئی۔قومی صحت کمیشن (این ایچ سی) کے مطابق گھریلو دوا سازوں کے ذریعہ تیار کیے گئے جعلی ویکسینز جیسے سائنو فرم اور سائنو واک کی مجموعی طور پر 40.52ملین خوراکیں پلائی گئیں۔ چین میں جمعہ سے شروع ہونے والی سال نو کی تعطیلات کے پیش نظر طبی عملہ، امیگریشن افسران، سرکاری ٹرانسپورٹ کے ملازمین اور کولڈ چین آپریٹرز پیش پیش تھے۔
این ایچ سی ترجمان می فینگ نے سرکاری طور پر کی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہیبی، لیاؤننگ ، جیلین اور ہیلونگ جانگ صوبوں میں جہاں کے دیہی علاقوں اور قصبوں میں دوبارہ سر ابھاررہے کوویڈ19-کا بیجنگ اور دیگر شہروں میں پھیلنے کا خطرہ لاحق ہو گیا تھا، اجتماعی جانچ کے ساتھ ساتھ متاثرہ مریضوں اور ان کے قریبی رشتہ داروں اور رابطوں کو الگ کرنے کا عمل بحسن و خوبی انجام پایا۔اس ہفتہ لگاتار تیسرے روز چین میں کوئی مقامی کیس سامنے نہیں آیا اور نہ ہی ایسے لوگ سامنے آئے جن میں اس وائرس کی علامتیں نظر آرہی ہوں ۔
می نے مزید کہا کہ لیکن لوگوں کو ایسے وقت میں جب پورے ملک میں نئے سال کے موقع پر ایک ہفتہ کی تعطیل ہو رہی ہے بے فکر نہیں ہوجانا چاہئے۔ انہوں نے مزید انتابہ دیا کہ اجتماعی ٹیکہ کاری مہم ، جس میں بزرگ لوگ بھی شامل ہیں، سب سے بڑا منفی اثر خوراکیں لینے کے بعد تحفظ کا جھوٹا احساس ہو سکتا ہے۔این ایچ سی نے مشورہ دئیا ہے کہ چینی ویکسین محفوظ ہیں اور یہ خوراکیں آپ کو کوویڈ سے بچاتی ہیں لیکن آپ ماسک لگانا نہ بھولیں۔دریں اثنا ملک میں جعلی ٹیکوں کے حوالے سے انکشافات ٹیکوں میں موجود دوا سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں۔ٹیکہ کاری پروگرام کے تحت درج لازمی خدمات کے ملازمین کے لیے عام طو پر کوویڈ کی خوراکیں لینا لازمی ہے۔
لیکن جب انہیں یہ ویکسین دی جاتی ہے تو انہیں ویکسین کے بارے میں این ایچ سی اور اس وکیسین کے سپلائروں کی جانب سے کوئی معلومات بہم نہیں پہنچائی جاتیں۔اس ہفتہ کے اوائل میں بیجنگ میں پیپلز پروکیوریٹوریٹ نے جنوری سے اب تک ملک گیر پیمانے پر 70جعلی دواسازوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف الزامات طے کیے ہیں۔ ژن ہوا نے انکشاف کیا کہ ایک کسی میں تحقیقات کاروں نے بیجنگ، جیانگسو اور شانڈوانگ صوبوں میں چھاپے مار کر مزید جعلی دواساز پکڑے جن کی تعداد گذشتہ ماہ جیانگ سو میں ابتدائی گرفتاریوں میں ضبط کی گئی ویکسینز سے کہیںزیادہ ہے۔سرکاری استغاثہ کے دلائل صحت و ادویات کے محکموں کے عہدیداروں کے دلیرانہ رویہ کے اشارے دیے ہیں اور جنگی پیمانے پر دوا تیار اور تقسیم کرنے میں ریاستی کونسل اور حکومتی افسران بالا کا خاص طور پر ذکر کیا۔
این ایچ سی نے عوام کو یہ باور کرانے میں لگے ہیں کہ یہ تمام ویکسین خالص ہیں اور ا س قسم کی کوئی دوائیں خوردہ منڈی میں لائی یا فروخت نہیں کی جاسکتیں ۔این ایچ سی نے یہ بھی فیصلہ کیااس ضمن میں مزید اعتماد اور بھروسہ پیدا کرنے کے لیے سرکاری ابلاغی ذرائع پر تبادلہ خیال اور انٹرویوز کے لیے زیادہ سے زیادہ ماہرین کو مدعو کیا جائے۔ قومی مرکز برائے کنٹرول و انسداد مرض کے ایک محقق شاو¿ یمین نے بیجنگ اور سرکاری براڈ کاسٹر چائنا سینٹرل ٹیلی ویژن کو اس ہفتہ اپنے ایک انٹرویو میں جو یہ دعویً کیا تھا کہ چین کی ویکسین 37ڈگری سیلشئس تک کے درجہ حرارت میں رہ سکتی ہے اور اس کی افادیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور نہ ہی وہ بے اثر ہو گی۔
شاؤ کا یہ دعویٰ ماہرین کے درمیان زبردست بحث کا موضوع رہا۔شاو¿ نے مزید کہا کہ فیزر کی ایم آر این اے ویکسین 90فیصد موثر ہے لیکن وہ اسے منفی 70ڈگری میں ہی رکھا جا سکتا ہے اس لیے وہ ترقی پذیر دنیا کے لیے نہیں ہے ۔کیونکہ اسکے لیے یہ نہیں بنائی گئی ہے۔ہماری ویکسین کو صرف اتنی ضرورت ہے کہ اسے 2تا8ڈگری سیلشیس درجہ حرارت کے ریفریجریٹر مٰں رکھ دیا جائے اور ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ سخت گرمی پڑنے کے بعد بھی وہ آج بھی کوویڈ کے کریضوں کے لیے موثر ہے اور یہ دوائیں غریب ملکوں کے لیے تیار کی گئی ہیں۔
دریں اثنا افریقہ کے لیے ویکسین کی پہلی چینی کھیپ بدھ کے روز استوائی گنی پہنچ گئی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ وہاں واقع چینی سفارت خانے نے یہ بھی کہا ہے کہ اس دوا کو صرف گھر کے فرج میں رکھنے کی ضرورت ہے۔اور اس کو تادیر محفوظ رکھنے کے لیے کوئی مخصوص سازو سامان کی ضرورت نہیں ہے۔ چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے بھی انڈونیشیا کے صدر سے، جوکو ویدودو جو گذشتہ ماہ دوسری بار بر سر اقتدار آئے ہیں ، وعدہ کیا ہے کہ سائنو واک کی مزید کھیپ انڈونیشیا بھیجی جائے گی۔وانگ نے کہا کہ چینی ویکسین انڈونیشیا جیسے کثیر آبادی والے ملک کے لیے نہایت موزوں ہے۔