China: Uyghur woman in Xinjiang sentenced to 14 years in prison for teaching Islamتصویر سوشل میڈیا

بیجنگ: چین کے اویغور مسلمانوں پر مظالم کی داستانیں مسلسل منظرعام پر آ رہی ہیں۔ اب اویغوروں پر مظالم کا ایک اور نیا کیس سامنے آیا ہے۔ چین کے مغربی علاقے سنکیانگ میں تقریبا چار سال قبل ایک خاتون کو اس کے گھر سے آدھی رات کو اغوا لیا گیا تھا۔ خاتون پر محلے کے کچھ بچوں کو مذہبی تعلیم دینے اور قرآن کے کچھ نسخے چھپانے کا الزام تھا۔ اب اس اویغور خاتون کو14 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ صورتحال سے باخبر ذرائع اور مقامی پولیس نے ریڈیو فری ایشیا کو آگاہ کیا۔آر ایف اے کی رپورٹ کے مطابق حسیت حمت (57) ہے۔ وہ سنکیانگ کی مانس کاؤنٹی کی رہائشی ہے۔

انہیں مئی 2017 میں حکام نے اغوا کیا تھا جس کے بعد ان کے بارے میں کوئی معلومات سامنے نہیں آئیں تھیں۔ معلومات کے مطابق پولیس آدھی رات کو حسیت کے گھر میں داخل ہوئی اور اس کے چہرے پر کالا نقاب ڈال دیا۔ حکام نے حسیت کو نہ ہی دوسرے کپڑے پہننے کو دیئے اور نہ ہی دوائیاں کھانے کی اجازت دی۔مانس کاو¿نٹی کورٹ کے ایک اہلکار نے حسیت کو 14 سال قید کی سزا سنائے جانے کی تصدیق کی ہے ۔ حکام نے بتایا کہ اسے یہ سزا بچوں کو قرآن پڑھانے اور قرآن کے دو نسخے چھپانے پر دی گئی۔حسیت کی گرفتاری سے نو سال قبل، اس کے شوہر کو علیحدگی پسندی کے الزامات میں سزا سنائی گئی تھی اور 2009 میں اسے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ حسیت نے اپنی گرفتاری سے دو سال قبل صحت کی وجہ سے بچوں کو پڑھانا بند کر دیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حسیت اکثر عوامی تقریبات میں حصہ لینے سے گریز کرتی ہیں۔

چینی حکام نے سنکیانگ میں متعدد اویغور تاجروں، دانشوروں اور ثقافتی اور مذہبی شخصیات کو مبینہ طور پر مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کو روکنے کے الزام میں نشانہ بنایا اور گرفتار کیا ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ چین نے سنکیانگ میں 2017 سے لاکھوں اویغور مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں رکھا ہوا ہے، جیسا کہ سیٹلائٹ تصاویر اور تحقیقاتی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے۔ دسمبر میں، امریکہ نے اویغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چین کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان کیا۔ بائیڈن انتظامیہ نے کہا کہ وہ سنکیانگ صوبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر متعدد چینی بائیو ٹیک اور نگرانی کرنے والی کمپنیوں پر نئی پابندیاں عائد کر رہی ہے۔ کامرس ڈیپارٹمنٹ چین کی اکیڈمی آف ملٹری میڈیکل سائنسز اور اس کے 11 تحقیقی اداروں کو نشانہ بنا رہا ہے جو چینی فوج کی مدد کے لیے بائیو ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *