سابق خارجہ سکریٹری نروپما راؤ نے ، جو ہندوستانی سفیر متعین چین رہ چکی ہیں، ایشیا سے متعلق چین کے تصورات میں ایک اہم تبدیلی سے ہمیں آگاہ کیا۔ ایک د ور تھا جب چین ”ایشیائی صدی“ کی باتیں کرتا تھا ۔مگر اب اس کی حالیہ توجہ ”چینی صدی“ بنانے پر مرکوز ہے۔
ہندوستان اور چین کے درمیان حالیہ کشیدگی اور ٹکراؤ سے ایک ایشیائی صدی کے ہی نہیں بلکہ چینی صدی کے مستقبل میں کامیابی کے امکانات پر بھی کاری ضرب لگے گی۔اگر چین کو قوم پرستی کا استحقاق حاصل ہے تو اس سے اس کے ایشیائی ہمسایہ ممالک بھی ایسی مراعات کے پابند ہونے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ہندوستان کو 1988میں اس وقت کے وزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی اور چینی لیڈر ڈینگ ژیاؤ پینگ کے درمیان ہونے والی بیجنگ ملاقات اچھی طرح یاد ہے۔
ڈینگ نے راجیو گاندھی کی جانب ، جو 1962کی ہند چین جنگ کے بعد چین کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم تھے، طویل اور گرمجوش دوستی کی پیش کش کی۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے ڈینگ نے ایشیائی صدی کا خواب پورا کرنے کے لیے ہند چین تعاون کی مرکزیت پر زور دیا۔ ایشیائی صدی کا خیال طویل مدتی تھا لیکن ڈانگ نے اسے ہم عصری معنی دیے۔ ایشیائی اتحاد کئی غیر واضح سیاسی تصورات میںسے ایک تھا جو 19ویں صدی کے اواخر اور20ویں صدی کے اوائل میں ذہن میں آیا۔کیونکہ مشرقی تہذیبیں مغرب کی اجارہ داری کے درمیان خود کو پھر سے زندہ کرنے کی جدوجہد کر رہی تھیں۔
تمام ایشیائی ممالک کے سیاسی اتحاد کے تصور،اتحاد اسلامیت ، اتحاد عربیت نے ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے لوگوں کی زبردست حوصلہ افزائی کی ۔لیکن کثیر اقوام کے درمیان اتحاد کی جو کوششیں کی جارہی تھیں وہ قوم پرستی اور ناقابل مفاہمت تضادات ک رجحانات سے ٹکرا کر چور چور ہو گئیں۔چین کے موجودہ صدر شی جن پینگ ایشیائی اتحاد کی بات کرتے رہے۔لیکن ان کا مقصد کچھ اور تھا۔ ڈینگ کی نظر میں ایشیائی اتحاد ان کی چین کی تعمیر نو کی حکمت عملی پر مرتکز تھا۔ کود اپنے گھر میں ڈینگ 1960 کے وسط سے 1970تک جاری رہنے والے ثقافتی انقلاب کے تحت ماؤ کی لہو کاری کے داغ دھبے دھونے اور زخم بھرنے کا تہیہ کیے ہوئے تھے ۔
ڈینگ نے ماؤ کی غیر ملکی مہم جوئی کا بھی، جس نے انقلاب کو فروغ دینے کے نام پر پڑوسی ملکوں کو کمزور کر دیا تھا،خاتمہ کیا۔ڈینگ نے اپنی سرحدوں پر امن قائم کیا اور چین کی جدت کاری کی پیشگی شرط کے طور پر باقی دنیا سے تعاون کرنا شروع کر دیا۔ شی جن پہنگ کا بہت ہی مختلف مقصد ہے ۔ وہ ایسے ملک کی قیادت کر رہے ہیں جو ڈینگ کی وسیع پیمانے پر اصلاحات کے باعث بڑی طاقت بن کر ابھرا ہے ۔شی جن پینگ کے لیے ایشیائی اتحاد چین کے پڑوسیوں کو چین کی علاقائی برتری تسلیم کرانے کے لیے ہے۔ شی جن پینگ قومی مفاد کے حصول کے لیے اونچی سوچ والے خیال کو تھوپنے والے پہلے ایشیائی لیڈر نہیں ہیں ۔ گذشتہ صدی میں دو عالمی جنگوں کے درمیان جاپان نے اس وقت کم و بیش ایسا ہی کیا تھا جب اس نے اپنی نو آبادیاتی توسیع کو ایشیائی صدی بنانے کے طور پر پیش کی۔
سامراج جاپان کا اپنے باہمی خوشحالی کے دائرے میں باقی ایشیا کو بھی سمیٹنے کی کوشش کو چین کی اپنے پڑوسیوں کو ایک پٹی ایک راستہ میں پڑوسی ممالک کو جکڑنے کی حالیہ کوشش کے شاخسانہکے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ روسی اشتراکیوں اور کمیونسٹ انٹرنیشنل نے سو سال پہلے آذر بائیجان کے شہر باکو میں”کانگریس آف دی پیپلز آف دی ایسٹ“ کے عنوان سے کثیر ملکی اجلاس منعقد کر کے ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں قوم پرست لیڈروں کو یکجا کیا۔
ایشیائی ممالک کی مختلف سامراجی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کی جبوری کے باعث سامر اجیت مخالف محاذ تشکیل دینے کی بڑھتی خواہش اڑن چھو ہو گئی۔ اگر کچھ ایشیائی ممالک نے جاپانی شہنشاہیت کے خلاف لڑائی لڑی تو دیگر نے یورپی سامراجیت کے شکنجہ غلامی سے خود کو آزاد کرانے کے لیے جاپان کو ایک اتحادی کے طور پر دیکھا۔ ترکی نوآبادیات کے دور میں دوسری جنگ عظیم کے بعد ایشیائی اتحاد اور یکجہتی اور بھی مشکل ہو گیا۔اگرچہ 1947میں دہلی میں ایشیائی ریلیشنز کانفرنس اور1955میں انڈونیشیائی شہر بندونگ میں منعقد ایشیا افریقہ کانفرنس رجحان میں تبدیلی کے باعث بنے جس سے نو آزاد ممالک میں رونما ہونے والی متعدد غلطیوں کو اجاگر کیا گیا۔1962کی ہند چین جنگ اور چین کے پڑوسیوں میں چینی کمیونسٹ پارٹی سے متعلق شکوک و شبہات نے1960اور1970کے عشرے میں ایشیائی اتحاد یا ایشیائی مصدی کے خیال کو خطہ کی سیاست کے لیے بے محل بنا دیا۔لیکن1980کے عشرے میں چین انقلابی نظریہ ختم کر کے ڈینگ کی قیادت میں دنیا کے سامنے آیا اور مغرب اور اس کے پڑوسی ممالک سے اقتصادی تعلقات شروع کرنے میں سرگرمی دکھائی تب ایشیائی اتحاد کا تصور کرنا ممکن ہوتا دکھائی دیا۔90کے عشرے میں ہندستان کی اپنی اقتصادی اصلاحات اور اس کی لک ایسٹ پالیسی نے ایشیائی اتحاد اور مشترکہ خوشحالی کے تصور کو جلا بخشی۔ ان سب کا مرکز ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز (آسیان)تھا جس نے اپنے بڑے ہمسایوں ،چین اور ہندوستان کے لیے ترقی کی وسیع راہیں ہموار کر دیں۔اس نے ایشیائی سطح پر سیاسی مشاورت اور اقتصادی یکجہتی کا ایک پلیٹ فارم بہم پہنچایا۔
آسیان کی کلیدی کامیابی قوم پرستی کو علاقہ پرستی کے حق میں ڈھالنے کے حوالے سے مشترکہ مفاہمت کا ہونا تھی۔ سقوط سوویت یونین کے بعد ایشیا میں بڑی طاقت کے غائب ہوجانے ،اقتصادی عالمگیریت کی نئی لہر اور چین اور خطہ میں تیزی کے ساتھ اقتصادی ترقی نے ایشیائی سنچری کے تصور کو زندہ کرنے میںمعاونت کی۔لیکن بدقسمتی سے معاملہ الٹ گیا اور چین کی غیر معمولی ترقی نے ایشیائی صدی کی موت کا سامان کر دیا۔چین دیگر ایشیا ئی پڑوسیوں کی بہ نسبت زیادہ طاقتور ہو گیا ۔جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ چین کو اب ایشیائی اتحاد کو قطعاً ضرورت نہیں ہے۔اس نے امریکہ کو زیر کرنے اور دنیا میں اول پوزیشن حاصل کرنے کے لیے چالیں چلنا شروع کر دی ہیں ۔اس میں حیرت کی بات نہیں کہ چین کا ایشیائی صدی تصور چینی صدی کی تعمیر میں تبدیل ہو گیا۔اگرچہ چین کو ایشیائی برتری کا دعویٰ کرنے کا حق حاصل ہے لیکن وہ دوسروں کو اس کا پابند نہیں کر سکتا۔ اور ضروری نہیں کہ دوسرے ممالک اسے برتر تسلیم کر لیں۔
چینی عمل ہمیں اس زبردست مورچہ بند ایشیائی قوم پرستی کی طرف لے جاتا ہے جس نے سامراجی طاقتوں کے خلاف مزاحمت کی اور سرد جنگ میں بڑی طاقتوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے یا ان کی ہدایات کو ماننے سے انکار کر دیا۔اگر مضبوط قوم پرستی چین کو اپنے پڑوسیوں کے مزید علاقہ ہڑپنے اور خطہ میں اپنی اجارہ داری اور چودھراہٹ قائم کرنے پر اکسا رہی ہے تو برابر کی حیثیت رکھنے والی ایشیائی قوم پرست طاقتیں چینی کمیونسٹ پارٹی کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف ردعمل ظاہر کریں گی۔گذشتہ سال ہندوستان کا چائنا سینٹرک ریجنل اکنامک آرڈر سے واک آؤٹ ،لداخ میں پیپلز لبریشن آرمی کے خلاف ڈٹے رہنا چین کے ساتھ ڈیجیٹل تعلق منقطع کرنا چینی صدی کے منفی نتائج سے مزاحمت کرنے کی ہندوستان کے سیاسی عزم کو اجاگر کرنے کی جانب ابتدائی اقدامات کا اعلان ہیں۔یہ بات درست ہے کہ ہندوستان کو جو اقتصادی اعتبار سے چین کے مقابلہ چھوٹا ہے ،چینی صدی کو چیلنج کرنے والا ہلا ملک ہونے کی قیمت چکانا پڑے گی ۔لیکن ہندوستان اتنا مضبوط ہے کہ وہ چین سے، جوقوم پرست جذبہ کی بے پناہ قوت کو نظر انداز کر رہا ہے، قیمت وصول کر لے گا ۔