چین اگر یہ سمجھتا ہے کہ جس طرح اس نے وسطی ایشیا کے تین ممالک قازقستان، کرغزستان اور تاجکستان و مراعات اور زور زبردستی سے دباؤ میں لے کر اپنے حق میں سرحدی تنازعات طے کر لیے ہندوستان سے بھی کر لے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔ہندوستان ان ملکوں سے بالکل مختلف ہے اور چین کا اس سے نمٹنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ چین نے ایک بہت بڑے علاقے پر دعویٰ کیا لیکن پھر یہ پیغام دینے کے لیے کہ اس نے اپنے ہم منصبوں کو مراعات دے کر ایک انچ زمین گنوائے بغیر کم سے کم مطالبہ پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔ پھر بھی اس کے فریقین مخالف کو خوش ہونے کا موقع دیا کہ انہوں نے زیادہ کچھ نہیں گنوایا۔
چینی ’فراخدلی ‘ نے درحقیقت وسطی ایشیائی ممالک کو 90کے عشرے میں چین کو علاقائی رعایت دینے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ آخری سرحدی تصفیہ تاجکستان سے2011میں ہوا جب چین نے 28000مربع کلومیٹر رقبہ پر دعویٰ کیا لیکن سریکول پہاڑیوں کے مشرق میں 1158مربع کلومیٹر پر اکتفا کر لیا۔تاجکیوں کو یہ زمین دینا پڑی پھر بھی وہ خود کو فاتح سمجھ رہے تھے۔یہاں تک کہ روس کو بھی چین کے ساتھ اپنی طویل سرحد تبدیل شدہ اسٹریٹجک حقائق کو تسلیم کر نے کے حق میں ضرورت کے مطابق ڈھالنا پڑا۔لیکن قازقستان اور روس کے مشرق بعید میں چینی آبادیاتی جارحیت جاری رہی ۔
ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کو کس طرح 1963میں معدنیات سے مالا مال وادی اوپرنگ اور دربند دروازہ کے عوض بلتستان/لداخ کے مقبوضہ خطہ میں سے 2050مربع میل (5180مربع کلو میٹر) علاقہ چین کے حوالے کرنا پڑا۔پھر بھی پاکستانی قیادت کو یہ کہنا پڑاکہ چین اس کا کوئی حصہ نہیں چھین سکا۔ بلکہ اس کے بجائے پاکستان کو 750مربع میل علاقہ تفویض کرنے پر وزیر اعظم چو این لائی کے فراخدلی پر ان سے اظہار تشکر کیا۔پہلی بار چین کی سرحد کنلون پہاڑی سلسلہ سے جس میں شکسگام، رسکام اور اغیل وادیوں اور میر آف ہنزہ کی زرخیز زمین پر مشتمل گلگت بلتستان علاقہ کے ایک بہت بڑی پٹی قراقرم علاقہ تک وسیع ہو گئی۔
لیکن چین کی توسیع پسندی سے پورے ایشیا میں بے چینی پھیل رہی تھی،۔ پاکستان بھی جموں و کشمیرکا علاقہ چین کو دینے کے اپنے عاجلانہ فیصلہ کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ چین کی سرحدی چالوں سے مستقبل کے لیے کوئی اشارہ نہ سہی لیکن سبق آموز مثالیں ضرور ملی ہیں ۔ لیکن ہندوستان کے ساتھ وہ کوئی چال نہیں چل سکا بلکہ اس کی کوئی چال کامیاب نہیں ہو سکی۔2005کےؤمعاہدے کئے مسودے کے توسط سے ہندوستان سے کوئی رعایت حاصل کرنے میں ناکام ہوجانے کے بعد چین نے متشددانہ فوجی چالیں چلنا شروع کر دیں۔ 2013میں پیپلز لبریشن آرمی نے سرحدی تنازعہ کے تصفیہ کی فوری ضرورت اور دوگنی کوششوں میں ہندوستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے دیپ سانگ میں 19کلو میٹر علاقہ پر چڑھائی کر دی۔
لداخ میں چین کی حالیہ کوشش اکسائے چن کی موجودہ ہئیت تبدیل کرنا یا لداخ میں ایل اے سی سے متصل سرحد کے،جہاں چین کو کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے، باقاعدہ تصفیہ کے لیے معاہدہ کرنے پر ہند کو مجبور کرنا ہے۔اور شاید اس نے غلطی سے یہ قیاس بھی کر لیا کہ ہندوستان نے اکسائے چن کو فضول بحث مان لیا ہے۔ایسا سمجھ کر چین چاہتا ہے کہ ہندوستان 38ہزار کلو میٹر پر مشتمل اکسائے چن علاقہ پر دعوے سے دستبردار ہو جائے اس طرح سے لداخ کو مجموعی سرحدی تنازعہ سے لا تعلق کر دیا جائے۔یہ پریشان کن ہے اور اگر ہندوستان اکسائے چن کو فوجی طاقت سے چھیننے کی چینی چال میں آجاتا تو چین ہندوستان سے اروناچل پردیش کی 90ہزار مربع کلو میٹر زمین پر توجہ مرکوز کر دے گا۔اگر لداخ کی جوں کی توں حالت برقرار نہ رکھی گئی تو موجودہ صورت حال نہایت خطرناک رہے گی۔
صدر چین شی جن پنگ اور وزیر اعظم نریندر مودی اسی جگہ واپس چلا جانا چاہئے جس مقام پر وہ دونوں مہابلی پورم میں تھے۔ابھی تک ان دونوں نے اعتماد سازی کے لیے جو کچ اقدامات کیے ہیں انہیں ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے بلکہ اس کے بجائے ا نہیں اور سرسبز و شاداب رکھنے کی سعی کی جانی چاہئے۔سرحدی امور سے متعلق مشاورت اور رابطہ کاری کے ورکنگ مکینزم کا اجلاس طلب کرنا ایک اچھا قدم ہے۔ وزیر اعظم مودی کو معاملہ کا سرا وہیں سے پکڑنا چاہئے جہاں2003میں اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی نے چھوڑا تھا۔