کرس پیٹرن
لندن : جب میں ہانگ کانگ کا گورنر تھا میرے زبردست نقادوں میں سے ایک سر پیری کراڈوک ،جو سابق برطانوی سفیر متعین چین ہیں، ہمیشہ ضد کرتے رہے کہ چین اقوام متحدہ سے کیے گئے اپنے ان وعدوں سے کبھی نہیں مکرے گا کہ 1997میں ہانگ کانگ کی برطانیہ سے چینی اقتدار اعلیٰ میں واپسی کے بعد50سال تک ہانگ کانگ کی خود مختاری اور طرز زندگی برقرار رکھنے کی ضمانت دیتا ہے۔کریڈوک نے ایک بار کہا تھا کہ چینی لیڈران ”غنڈے بدمعاشوں جیسے ڈکٹیٹر “ہو سکتے ہیں لیکن وہ ”اپنے قول کے پکے “ہیں اور وہ جو وعدہ کریں ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے“۔آج کل ہم اوپر بیان کردہ مشاہدے کے پہلے نصف کی سچائی کا ثبوت دیکھ رہے ہیں۔چینی صدر شی جن پینگ کی ڈکٹیٹر شپ بلا شبہ بد معاشوں جیسی ہے۔سین سیانگ میں ان کی پالیسیاں دیکھیں۔ بہت سے بین الاقوامی وکلاءدلیل دیتے ہیں کہ ایک ملین سے زائد مسلم ایغوروں مرد وں کی نسبندی اور عورتوں کا اسقاط حمل کر اکے رحم مادر نکال دینا اور مزدوروں کو غلام بنالینا نسل کشی سے متعلق اقوام متحدہ کی تشریح سے میل کھاتا ہے۔یہ بدترین ظلم غنڈہ گردی سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔
سیٹلائٹ سے موصول تصاویر پر مبنی آسٹریلیائی اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایک حالیہ جائزے سے نشاندہی ہوتی ہے کہ چین نے سین سیانگ میں 380انٹرنمنٹ کیمپ تعمیر کر دیے ہیں جن میں سے ابھی 14زیر تعمیر ہیں۔ابتدا میں ان کیمپوں کے وجود تک کی تردید کرنے کے بعد کچھ چینی حکام نے اب دعویٰ کیا ہے کہ ان کیمپوں میں قید زیادہ تر لوگ پہلے ہی اپنی ذاتی برادریوں میں واپس جا چکے ہیں ۔یہ واضح طور پر سچائی سے کوسوں دور ہے۔اب شی اور ان کی کمیونسٹ پارٹی کے خفیہ کارندوں کہاں ”قول کے سچے “ہوئے۔سخت افسوس کی بات ہے کہ کریڈوک کی وضاحت کی حقیقت میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔آخری کام جو دنیا کو کرنا چاہئے وہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا پر اعتماد کریں۔چینی قیادت کی چالبازی اور دروغ گوئی کی کئی میں سے چار مثالیں سب پر صاف ظاہر ہوجانی چاہئیں۔
اول یہ کہ کوویڈ19-چین سے پھیلا ہے جس نے دنیا بھر میں ایسی تباہی مچائی کہ اللہ کی پناہ۔ محض چند ماہ کے دوران دس لاکھ سے زائد لوگ لقمہ اجل بن گئے ملازمتیں چھٹ گئیں، بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار ہو گئے، معیشت تباہ ہوگئی کاروبار ٹھپ پڑ گئے۔2002-03سارس وبا کے ،جس کا مرکز بھی چین ہی تھا، بعدعالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) نے چین سمیت اپنے تمام اراکین سے بات کر کے کہا کہ بین الاقوامی صحت ضابطوں کے طور پر رہنما خطوط مرتب کریں۔ ان ضابطوں ، خاص طور پر آرٹیکل6کے تحت ،حکومت چین کو مجبور کیا گیا کہ معاہدے کے دیگر دستخط کنندگان کی طرح نئی صحت عامہ ایمرجنسی سے متعلق معلومات اکٹھا کریں اور 24گھنٹے کے اندر ڈبلیو ایچ او کو رپورٹ دیں۔اس کے بجائے، جیسا کہ اوٹاوا یونیورسٹی کے پروفیسر اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے ممتاز وکیل ایرل پیٹرک مینڈیز نے نشاندہی کی ، چین نے گذشتہ سال اس متعدی مرض سے متعلق پیشگی اطلاع کرو پوشیدہ رکھا اور اعدا و شمار تلف کر دیے اور توڑ مروڑ کرجھوٹے پیش کیے۔جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ کورونا وائرس جسے بہت پہلے ہی دبایا جا سکتا تھا وبئی شکل اختیار کر کے دنیا بھر میں پھیل گیا۔یہ چینی کمیونسٹ پارٹی کا پھیلایا ہوا مرض ہے کیونکہ وہ کم قصور وار نہیں ہے کیونکہ اسی نے ان دلیر ڈاکٹروں کو خاموش کر دیا جنہوں نے دنیا کو اس کے خطرے سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔
دوسری مثال میںسابق صدر امریکہ براک اوبامہ بھی شی کے غیر معتبر ہونے کی تصدیق کر سکتے ہیں ۔ستمبر2015میں شی نے اوبامہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ چین جنوبی بحیرہ چین کے جزائر کے اندر اور اطراف میں فوجی کارروائی نہیں کر رہا اور نہ ہی کرے گا۔لیکن یہ وعدہ بھی چینی کمیونسٹ پارٹی کے کردار کے عین مطابق تھا۔ جو پوری طرح جھوٹ پر مبنی تھا۔ لیکن ایک امریکی تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سے جاری سیٹلائٹ تصایور سے قرار واقعی شہادت مل گئی کہ چینی فوج نے جزیروں میں طیارہ شکن توپوں کی بڑی بیٹریاں تعینات کر رکھی ہیں۔عین اسی وقت چینی بحریہ نے ویتنام کی ان آبی علاقوں میں ماہی گیری کے جہاز ڈبو دیے اور وہاں نئے طیارہ شکن میزائلوں کا تجربہ کیا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کی بد دیانتی کی تیسری مثال ہانگ کانگ کی خود مختاری، آزادی اور قانون کی حکمرانی پر حملہ ہے۔ شی نے یہ اقدام کر کے اس وعدے کی دھجیاں بکھیر دیں جو چین نے 1984کے مشترکہ اعلامیے میں ہانگ کانگ اور بین الاقوامی برادری سے کیے تھے کہ ہانگ کانگ 2047تک آزادرہے گا۔اس پر طرہ یہ کہ چین نے ہانگ کانگ کی آزادی پر قدغن لگانے کے لے جو قانون بنایا وہ ماو¿رائے علاقہ ہے۔ قومی سلامتی قانون کی دفعہ 38 کاہانگ کانگ میں چینی ہوں یا کسی بھی دوسرے ملک کے شہری ہوں سب پر اطلاق ہوگا۔مثال کے طور پر کوئی بھی صحافی خواہ وہ امریکی ہو،برطانوی ہو یا جاپانی ہو تبت یا ہانگ کانگ میں حکومت چین کی پالیسی پر تنقید کے حوالے سے اپنے ملک کے اندر کچھ لکھتا ہے تو چین یا ہانگ کانگ میں قدم رکھتے ہی اسے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
آخر میں چین کی تجارتی و سرمایہ کاری وعدہ خلافیوں کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے جس میں چینی کمیونسٹ اپرٹی کے عہدیداروں کے کیے گئے تمام وعدوں کی دھجیاں بکھیر دی گئیں ۔ چین کی استبداری و جابرانہ اقتصادی ڈپلومیسی میں یہ بھی شامل ہے کہ ان ملکوں سے کوئی برآمدات کی خریداری نہیں کی جائے گی جہاں کی حکومتیں شی کے مقابلہ پر کھڑے ہونے کی ہمت رکھتی ہیں۔یہ ناروے، آسٹریلیا، جنوبی کوریا، جاپان، جرمنی ،یو کے ،فرانس ،کناڈا ،امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ ہو چکا ہے۔
ایک چیز واضح ہے کہ : دنیا شی کی تانا شاہی پر اعتماد نہیں کر سکتی۔ جلد یا بدیر ہم سبھی اسے سمجھ جائیں گے اور متحد ہو کر کارروائی کریں گے۔اور بہت جلد چین کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا اور سب سے اچھا سلوک کرنا ہوگا۔ جس سے دنیا محفوظ تر اور مزید خوشحال ہوگی۔
(مضمون نگار ،جو ہانگ کانگ کے سابق برطانوی گورنر اور یورپی یونین کے سابق کمشنر برائے امور خارجہ ہیں، آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر ہیں)
