جوہری خاندان کو ،جس میں شوہر، بیوی اور ان کی اپنی اولاد ہو اور ان میں شوہر و بیوی میں سے کسی کے بھی والدین نہیں ہوتے، عام طور پر ظالم و جابر کہا جاتا ہے ۔اور پھر بھی لوگ جب اپنی رہائش کا بندوبست کرنے کے لیے آزاد ہیں تو ہم میں سے زیادہ تر جوہری خاندان ہی پسند کرتے ہیں۔ ہم ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتے لیکن جہاں تک اس کے مثالی ہونے کی بات ہے تو اس میں کوئی شبہ نہیں۔
آزاد خیال معاشروں میں مختلف معیار اور تبدیلیاں تسلیم کی جاتی ہیں مثلاً یک والدین کنبہ اور ہم جنس جوڑے۔ لیکن اس سے کسی بھی نجی گھر کا جس میں والدین اپنے بچوں کی بنیادی نگہداشت کرتے ہیں نمونہ بنتا ہے وہ آزادانہ طور پر چنے جانے والا عام معیار اور قاعدہ ہے ۔علاوہ ازیں بہت سی ایسی مثالیں ہیں جس میں جوہری کنبہ ظلم و ستم کا وسیلہ نہیں بلکہ اس کا ہدف ہوتا ہے۔ان لوگوں کے لیے جو اپنے ساتھی انسانوں کو آلہ کار بنائیں گے ان کے لیے کنبے ہمیشہ پریشانی کا باعث ہوتے ہیں۔غلامی کی تاریخ اور اس کی شراکت داری اور والدیت کو بری طرح نظر انداز ی پر ایک نظر ڈالیں ۔
ابتدائی دور کے کمیونسٹوں میں ایک روایتی کنبہ قدیم نظام زندگی کا ایک نقش پا ، حکمرانی کی طاقت کی راہ میں رکاوٹ اور راز داری کے قدیم تصورات کی پناہ گاہ ہے۔حالانکہ عملی طور پر سوویت یونین جیسی حکومتوں نے پایا کہ سماجی سہارے کے ڈھانچوں کے اس نہایت بنیادی خیال کو نفاذ سے زیادہ مرحلہ وار نظریہ میں بدلنا زیادہ آسان ہے۔جیسا کہ ہر قسم کی حکومت جانتی ہے کہ ایک ماں یا باپ کو لینا کافی مہنگا ہے لیکن دونوں کو بدلنے کی قیمت ممنوع ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مشترکہ بچہ کی نگہداشت نہیں ہوتی لیکن یہ زیادہ تر دیکھ بھال کے نظام،برطانوی پبلک اسکولوں ، ہپی برادری اوربڑی معاشرتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی صورت حال تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔
یقیناً مکمل اجتماعیت کا مطلق العنانہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ دی اکنامسٹ چینی صوبہ شن جیانگ میں حد درجہ منحوس اور قابل نفرت رجحان کا انکشاف کرتا ہے ۔گذشتہ کچھ سالوں سے بورڈنگ اسکولوں کے رہائشی کمروں کو بہت وسیع کیا جا رہا ہے۔اگرچہ باقی چین میں شرح نمو کم اور انحطاط پذیر ہے لیکن شن جیانگ میں یہ تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجہ ایغور بالغوں کی وسیع پیمانے پر قید ہے جس سے ایغور بچے یتیمی کی زندگی گذار رہے ہیں اور اس کسمپرسی کے باعث وہ بچے چینی حکومت کے زیر کفالت آگئے اور ان سے سخت مزدوری کرائی جانے لگی۔ کمیونسٹ حکام دیگر ذرائع اور طریقوں سے بھی خاندانی زندگی کی بنیادوں پر حملہ کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر ایغور گھروں میں اکثریتی ہان چینی اکثریت لوگوں کی توہین کرنے کی بری عادت ہے۔ اور یہی نہیں بلکہ عوامی جمہوریہ چین کی جبراً اسقاط حمل اور نسبندی کا پسندیدہ پرانا مشغلہ بھی ہے۔ ظلم و استبداد کے اس نظام کے اثرات ایغوروں کی شرح پیدائش میں زبردست کمی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ شن جیانگ میں چین کی خاندانی پالیسی مالی اور انسانی اعتبار سے بھیانک قیمت کی شکل میں آئے گی۔ لیکن اس وقت اس کا مقصد ایک نئے معاشرے کی تشکیل نہیں بلکہ پرانے معاشرے کو تہس نہس اور نیست و نابود کرنا ہوگا۔