آخر چین اپنے عالمی سطح پر اچانک دھونس جمانے والی ’وولف واریر‘ تحریک سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟اربوں ڈالر کا انٹیلی جنس ہارڈ ویر اور سافٹ ویر چین کی جانب ہی نشاندہی کر رہا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ شی جن پینگ کی اسٹریٹجک سوچ بلیک باکس ہے۔ غیر واضح تقریروں، جابرانہ رویہ کے خفیہ اشاروں اور چینی سفارت کاروں کے بڑھتے غیر ضروری بیانات اور پارٹی کے زیر اثر ذرائع ابلاغ کے توسط سے چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کے ارادے کی ایک جھلک مل جائے گی۔
شی جن پینگ جو سوچتا ہے کر رہا ہے لیکن اس کا نتیجہ چین کے طویل میعادی مفادات کے لیے تباہ کن شکل میں منطبق ہو گا۔چین کے کبھی بھی نہ تو بہت سارے اور نہ ہی چند ایک قریبی دوست رہے ہیں لیکن محض ایک سال کے اند ر وولف واریرز نے دنیا بھر میں تجارتی، سرمایہ کاری اور ریسرچ پارٹنر کے طور پر چین پر جو بھی کچھ اعتماد تھا اسے ناقابل تلافی طور پر نقصان پہنچایا ۔ایک منقسم امریکہ میں چین کی مخالفت ہی ایک ایسی پالیسی ہے جس پر ری پبلکنز اور ڈیمو کریٹس متفق ہیں۔ چین کے نازیبا برتاؤ سے اسے پسپا کرنے کے لیے یورپی یونین اور برطانیہ میںاتفاق رائے دیکھنے میں آیا۔ جس سے آسیان کو ایک مضبوط مشترکہ مقصد ملا اور آسٹریلیا کوبحرالکاہل میں پیش رفت کرنے کے عزم کی آگ کو بھڑکا دیااور اس نے دفاع پر اخراجات میں اضافہ کر دیا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سال 20جنوری کو حالات نے کس طرح ڈرامائی تبدیلی اختیار کی۔خارجہ امور کی وزارت کے زیر اہتمام چھٹے سالانہ آسٹریلیا چین اعلیٰ سطحی مذاکرات ،جس کے متعلق وزارت کی پریس ریلیز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ مذاکرات شراکت اور دوستی کو استحکام، اعتماد بحالی اور آسٹریلیا چین کے درمیان گہری مفاہمت پید کرنے میں معاون ثابت ہوں گے، جان ہاورڈ کی زیر صدارت ہوئے۔ 8ماہ بعد چین کے ساتھ ہمارے تعلقات پر ان میں سے ایک لفظ کا بھی اطلاق نہیں ہوتا ۔ یہاں تک کہ خوشی کے شادیانے بجانے والے آسٹریلیا ئی اسکواڈ پر سے، چین کے اس دعوے پر کہ فریقین کے مابین تعلق پر آسٹریلیا کے عملی الفاظ کا فقدان کشیدگی کا باعث بن رہا ہے ، چین کا اثر زنگ آلود ہونے لگا ۔
اگر چین نے کمیونسٹ سیاستداں دنگ شاؤپنگ کے اس مقولے پر ”ایڑے بن کر پیڑے کھاؤ“پر عمل پیرا رہتا تو مجھے یقین نہیں کہ چینی دولت کی چمک دمک میں آسٹریلیا ہماری اقتصادیات، سیاسی نظام ، بیش قیمت بنیادہ ڈھانچہ، یونیورسٹیوں اور تاجر برادری کو تھوک میں سمجھوتہ روکنے میں اجتماعی قورت ارادی پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا ہوتا۔در حقیقت کوویڈ19-اور وولف واریر زور زبردستی ہمیںخواب غفلت سے بیدار کرنے کی وہ گھنٹی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔ لیکن یہ بات پھربھی معمہ بنی ہوئی ہے کہ آخر چین نے وہ حکمت عملی جو اس کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کر رہی تھی ترک کر کے ایسا انداز فکر کیوں اختیار کیا جس سے اس کی پوزیشن کو نقصان پہنچا رہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ تین اہم اور بڑے عوامل چین کی اسٹریٹجک سوچ بنا رہے ہیں۔
ان عوامل کو سمجھنا ہماری جواب دینے والی پالیسی کی تعریف بیان کرنے اور آئندہ ہونے والے واقعات کا اندازہ قائم کرنے میں مددگارثابت ہوگا۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ سینی کمیونسٹ پارٹی کی پالیسی سازی تیزی سے ایک ہی شخص شی جن پینگ پر مرکوز ہوتی جارہی ہے ۔ پارٹی اور پی ایل اے کے2012سے تسلسل سے جاری تطہیر کے عمل سے شی نے سیاسی حریفوں کا باہر کا راستہ دکھادیا اور خود کو فوج کا کمانڈر انچیف اور جنوبی بحریہ چین سے بیلٹ اینڈ روڈ پراجکٹ تک اور پھر کوویڈ 19-وبا غرضیکہ ہر شعبہ حیات میں خود کو پالیسی ساز بنا لیا ۔جس سے سی سی پی شی کے اطراف ہی گھوم رہی ہے۔اس قسم کی سوچ کے واضح خطرات ہیں۔
کون سی سینئر پارٹی شخصیت شی سے کہے گی یا کہہ سکتی ہے کہ وولف واریر ترکیب پارٹی کے عالمی مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔یہ سوچنا خالی از دلچسپی نہیں ہے کہ شی کا آمرانہ انداز جزوی طور پر اس عزم سے تحریک پاتا ہے کہ اپنے والد کی طرح گرفتار یا پاک نہ کیا جائے۔ اس کی قیادت بھی مارکسسٹ لیننسٹ نظریہ کی ، جسے مغرب خارج کرتا ہے،دین ہے نتیجہ میں شی لیننسٹ آمریت21ویں صدی کی مصنوعی انٹیلی جنس تک لے آئے ۔دوسرا سبب یہ ہے کہ شی کی فکر یہ ہے کہ چین کے اندر سی سی پی کی پوزیشن کو مزید مستحکم کیا جائے جس ان کے لیے ضروری ہے۔
