ہانگ کانگ: جب بدھ کے روز ایک چینی سفیر کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے ایک فحش اور عریاں ویڈیو کو جس میں پاؤں کا استعمال دکھایا گیا تھا،”پسند“ کیا گیا تو چینی سفارت خانہ سے شدید غصہ سے بھرا ہوا ایک بیان جاری کیا گیا جس میں ٹوئیٹر سے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔پسند کیے جانے پر سوشل میڈیا میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا جس میں اس بات پر زور شور کے ساتھ بحث چھڑ گئی کہ آیا یہ اتفاق ہے یا چینی سفیر متعین برطانیہ لیو شیامینگ کا ٹوئیٹر اکاؤنٹ ہیک ہو گیا ہے۔ شہادت سے پتہ چلتا ہے کہ مسٹر لیو ایک ایسے ناتجربہ کار بومر ہوسکتے ہیں جو ایک پلیٹ فارم پر جس پر خود ان کے اپنے ملک میں پابندی عائد ہے مہارت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔ ان کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ میں عجیب و غریب پسند کی ایک تاریخ ہے۔ اس میں اکثر اپنی ہی ٹویٹس کو پسند کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ اسے خود چین پر تنقید بھی پسند آئی ہے۔لیکن یہ واقعہ چین کے وولف واریر سفارت کاروں کے درمیان پیش پیش رہنے والی آواز کے دور میں شرمندگی کا داغ لگانے والا بن گیا۔ ایک ٹوئیٹر نمائندے نے تفتیش کے لیے چین کے مطالبہ پر جمعرات کے روز کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔جب اس تنازعہ نے زور پکڑا تو سفیر کے اکاؤنٹ سے پسند حذف کر دیے گئے لیکن گذشتہ ائیک سال کے دوران جو درجنوں ”پسند “ حذف کیے گئے ان میں دو پسند بشمول ویڈیو والا حذف کیے جانے سے رہ گیا۔لیکن برطانیہ میں، جس کے سابق برطانوی نو آبادیات ہانگ کانگ میں چین کے ذریعہ قومی سلامتی قانون نافذ کرنے پر چین سے سفارتی تعلقات کشیدہ ہیں، ٹیبولائزڈز نے ٹوئیٹر طوفان میں زبردست دلچسپی دکھائی اور اسے نمایاں طور پر شائع کرنا شروع کر دیا۔سن ٹیبولائیڈ نے سرخی لگائی”شعلہ بیان چینی سفیر “ نے ”اس میں اپنا پاو¿ں ڈال دیا۔“ 64سالہ مسٹر لیو ، جو چین کے مشہور اور مانے جانے سفارت کاروں میں سے ایک ہیں،2009سے برطانیہ میں سفیر کے طور پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ وہ آئے روز ٹلی ویژن پر چین کے نقادوں پر برستے اور ہانگ کانگ میں جمہوریت کے علمبرداروں اور وکالت کرنے والوں پر اپنے ملک کے کریک ڈاؤن اور سین کیانگ خطہ میں ایغوروں کی اجتماعی اسیری پر تنقیدوں کا جواب دیتے نظر آتے ہیں۔
جولائی میں بی بی سی کے ایک پروگرام کے دوران انہیں ڈرون ویڈیو دکھایا گیا جس میں سین کیانگ میں قیدیوں کو ٹرین میں ٹھونستے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ جب ان سے یہ معلوم کیا گیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے تو وہ تھوڑے جز بز ہوئے لیکن سنبھل گئے اور جواب دیا کہ سین کیانگ کو ایک نہایت پرفضا اور خوبصورت مقام سمجھا جاتا ہے ۔لیکن بعد میں انہوں نے کہا کہ ویڈیو جعلی ہو سکتا ہے۔مسٹر لیو نے سائٹ پر دیگر چینی سفارت کاروں کے فالوورز کی کثیر تعداد دیکھ کر گذشتہ ہفتہ ہی ٹوئیٹر کے صارف بنے تھے۔انہوں نے جلد ہی اپنے دیگر ساتھیوں کی، جن کی مقبول عام چینی فلم سریز کے بعد ” وولف واریرز“ عرفیت ہو گئی تھی، جارح زبان اختیار کر لی ۔ایک سال کے اندر ہی ان کے فالوورز کی تعداد85ہزار سے تجاوز کر گئی۔انہوں نے سین کیانگ کریک ڈاؤن پر ریسرچ کرنے والے ایک اسکالر ایڈریان زینک کو ہدف تنقید بنانے کے لیے ٹوئیٹر کا استعمال کیا تھا۔اس نے گذشتہ سال ہانگ کانگ میں احتجاجی تحریک بھڑکانے کے لیے غیر ملکی طاقتوں پر الزام لگایا تھا ۔ اس نے کورونا وائرس کے حوالے سے بھی چین کی تعریف کی تھی اور زبردست مواصلاتی کمپنی ہواوے کا دفاع کیا تھا۔لیکن جب سے انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم میں شمولیت اختیار کی ”پسند“ کا کالم خاص طور پر پریشان کن بن گیا۔اکتوبر میں انہوں نے ٹوئیٹر پر جیسے ہی خود کو متعارف کرایا(سبھی کو ہیلو! میں لیو شیاؤ مینگ ہوں) ان کے اکاؤنٹ نے ان کے تعارفی پیغام پر ایک جواب کو جس طرح پسند کیا اسے عام طور پر چینی سفیر اہمیت بھی نہ دیتے۔ اس میں کہا گیا تھا ”چینی آمریت کے نمائندے کا خیرمقدم ہے! مطلق العنانیت کا خیر مقدم !“یہ چھوٹے موٹے ”پسند“ بدھ کے روز مسٹر لیو کے اکاو¿نٹ کے بدنام ہونے تک کوئی سنگین مسئلہ نہیں تھے ۔
برٹش کنزرویٹیو پارٹی کے حقوق انسانی کمیشن کے ایک رکن لیوک دی پلفورڈ نے اس ویڈیو کو بظاہر مسٹر لیو کی تصدیق کی جانب توجہ دلاتے ہوئےٹوئیٹر کے توسط سے لکھا تھا ”وارننگ: اگر کھانا کھا رہے ہوں تو اسے نہ پڑھیں“۔مسٹر ڈی پلفورڈ نے مزید لکھا کہ” اس کے لیے تھوڑا کمینہ پن محسوس کیا“لیکن پھر مجھے #ایغور اسیری کیمپ اور #ہانگ کانگ یاد آیا اور فوراً ہی اس کی طرف سے خیال ہٹا لیا۔چینی سفارت خانہ فوری طور پر مسٹر لیو کے دفاع پر اتر آیا اور نامعلوم چین مخالف عناصر کو ،جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ انہوں نے سفیر لیو شیاؤ مینگ کا ٹوئیٹر اکاؤنٹ ہیک کر لیا ہے اور عوام الناس کو دھوکا دینے کے لیے گھناؤنی طریقہ کار استعمال کر رہے ہیں، مورد الزام ٹہرایا ہے۔“سفارت خانہ نے ٹوئیٹرکمپنی کو اس کی اطلاع دی اور اس کو تلقین کی کہ اسکی مکمل تحقیقات کی جائے اور معاملہ کو سنجیدگی سے دیکھا جائے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ ”سفارت خانہ مزید کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے اور امید کرتا ہے کہ عوام اس قسم کی افواہ پر یقین کریں گے اور نہ ہی اسے پھیلائیں گے۔مسٹر لیو دنیا بھر کے ان عہدیداروں کے ایک گروپ میں شامل ہو گئے جو نامناسب ٹوئیٹس دیکھ کر حیرت سے اچھل پڑے تھے ۔نیو یارک کے ایک ڈیموکریٹ ڈی وینر جنہوں نے اپنی ایک قابل اعتراض فوٹو ٹوئیٹ کرنے کے بعد کانگریس سے استعفیٰ دے دیا تھااور بعد میں شادی کے موقع پر آن لائن خواتین کے ساتھ ناجائز رشتوں کا اعتراف کیا تھا ۔برطانیہ کے ایک سابق ممبر پارلیمنٹ ایڈ بالز نے بظاہر کچھ تلاش کرنے کی کوشش میں 2011میں خود اپنا نام ٹوئیٹ کیا تھا(28انہوں نے جس تاریخ کو ایسا کیا تھا وہ28اپریل تھی ایڈ بالز ڈے کے طور پر ٹوئیٹر پر جانا جاتا ہے) اور ٹیکساس ری پبلکن سنیٹر ٹیڈ کروز نے 2017میں پرونوگرافک ٹوئیٹ کو ’پسند ‘ کیا تھا جس کا یک اسٹاف ممبر پر الزام عائد کیا گیا تھا۔مسٹر لیو براہ راست اس تنا زعہ سے نہیں نپٹے ۔ بلکہ انہوں نے ایک کہاوت ” کھرے سونے کوکسوٹی کا کیا خوف“ٹوئیٹ کر کے خود کو بے قصور قرار دینا چاہا ہے۔
