Chinese Companies to face more scrutiny as bill clears Houseتصویر سوشل میڈیا

واشنگٹن:ایوان نمائندگان نے بدھ کے روز ایک قانون بنایا ہے جس کی رو سے امریکی اسٹاک ایکس چنج میں درج چینی کمپنیوں کی نگرانی میں اضافہ کردیا جائے گا۔ امریکی پارلیمنٹ کایہ اقدام چین کے ساتھ مالی تعلقات کی جانچ پڑتال کی تازہ ترین کوشش سمجھا جارہا ہے۔

غیر ملکی کمپنیوں کو جوابدہ بنانے کے قانون کے عنوان سے پیش کیے گئے اس بل کے تحت تمام چینی کمپنیوں کو غیر ملکی حکومتوں اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کی مزید معلومات فراہم کرنا پڑیں گی۔اور اگر انہوں نے امریکی ریگولیٹرز کو اپنی آڈٹ معلومات تک رسائی نہ دی توتین سال بعد انہیں امریکہ اسٹاک ایکس چنج سے نکال دیا جائے گا۔

سنیٹ نے مئی میں ایک کمپینین بل منظور کیا تھا اور توقع ہے کہ صدر ٹرمپ اس قانون پر دستخط کردیں گے۔دونوں پارٹیوں کے سیاستدانوں نے چینی مالی نظام میں شفافیت کے فقدان پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ اس سے امریکی سرمایہ کاروں کے ساتھ کسی بھی وقت دھوکا ہو سکتا ہے۔چینی قانون آڈیٹروںکو کچھ مخصوص کمپنی مالی معلومات ملک سے باہر منتقل کرنے پر بندش لگاتا ہے اور اس کی رسائی امریکی نگراں تک محدود رکھتا ہے۔امریکی آڈیٹنگ ریگولیٹر ،پبلک کمپنی اکاؤنٹنگ اوورسائٹ بورڈ کے مطابق بہت سی بڑی چینی کمپنیاں بشمول بائیدو، چائنا موبائل، پیٹرو چائنا اور سیمی کنڈکٹر مینو فیکچرنگ انٹرنیشنل کارپوریشن امریکی ریگولیٹری اسٹینڈرڈز کے تقاضے پورے نہیں کرتیں۔

نئے قانون کےءتحت اگر چین اپنے مالی طور طریقوں میں کوئی تبدیلی نہیں کرتا ہے تو لامحالہ چینی کمپنیون کو امریکی اسٹاک ایکس چنج سے نکال باہر کر دینا پڑے گا۔ لوئیشیانہ سے ری پبلکن سنیٹر جان کنیڈی نے، جنہوں نے سنیٹ میں یہ بل پیش کیا، کہا کہ امریکی پالیسی کے تحت چین کو اس کی اجازت مل گئی کہ وہ ان قوانین کی دھجیاں بکھیر دے جن سے امریکی کمپنیوں کو کچھ حاصل ہوتا ہے جس سے سرکاری کمپنیوں میں امریکی سرمایہ کاروں کے لیے خطرناک صورت حال پیدا ہو گی۔لیکن آج میں یہ دیکھ کر بہت خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ یہ بل منظوری کے لیے صدر کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔

بدھ کے ہی روز ووٹ سے پہلے چین کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ یہ قانون اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ نے چینی کمپنیوں کے خلاف امتیازی پالیسی اختیار کر لی ہے اور کسی بی مسئلہ کو سلجھانے کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ تمام متعلقہ فریقین سرحد پار ریگولیٹری تعاون کو کھلے اور واضح انداز میں مستحکم کریں۔چین کی اقتصادی پالیسی سازی سے وابستہ لوگ اس معاملہ پر امریکی موقف سے پریشان ہیں۔ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نیا قانون کے نفاذ کے حوالے سے چین ہرگز فکر مند نہیں ہے۔ شنگھائی اور ہانگ کانگ کے اسٹاک مارکٹ پہلے کے مقابلہ بہت بڑی او ر گہری ہیں اور بہت سی کمپنیوں کی قدر اکثر و بیشتر امریکی اسٹاک ایکس چنج کے مقابلہ کہیں زیادہ ہے۔اسلیے اگر امریکہ انہیں نکال بار کر بھی دے تو چینی کمپنیاں گھر بیٹھے بے تحاشہ آمدن کر سکتی ہیں۔

ابھی تک چینی اسٹاک ایکسچنج بازار وں میں ایک بڑی خاص خامی تھی: صرف منفعت بخش کمپنیوں کو ہی حصص فروخت کرنے کی اجازت تھی۔جس کی وجہ سے اکثر کمپنیاں خاص طور پر ٹیکنیکل انڈسٹریز کی غیر منافع بخش کمپنیاں امریکہ کا رخ کرنے لگیں۔دو سال قبل شنگھائی اسٹاک ایکس چنج نے ایک ایڈیشنل مارکٹ شروع کی جس نے غیر منافع بخش مگر تیزی سے ابھرنے والی کمپنیوں کو شئیرز فروخت کرنے اور لسٹنگ میں شامل ہونے کی اجاز ت دے دی۔

ٹرمپ ایڈمنسٹریشن نے امریکہ اور چین کے درمیان اقتصادی رشتے منقطع کرنے کے کئی اقدامات کو منظوری دی اور اپنی میعاد کے آخری ایام میں ان میں کمی آنے کے بہت کم آثار نظر آئےسیکورٹیز اینڈ ایکس چنج کمیشن نے ایسے ضابطے بھی تجویز کیے جس کی رو سے چینی کمپنیون کو امریکی اسٹاک مارکٹوں میں اسٹاک سے پہلے ہی مال عوام میں فروخت کر نے کی اجازت نہیںہو گی یا امریکی آڈٹنگ قوانین کا احترام نہ کرنے والی چینی کمپنیوں کو اسٹاک ایکسچنج سے نکال باہر کیا جائے۔ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کے دباو¿ میں اس سال ایک وفاقی ریٹائرمنٹ فنڈنے چینی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے منصوبوں پر بھی قدغن لگا دیا۔بدھ کے روز کسٹمز اور بارڈر پروٹیکشن نے بھی چین کے دور افتادہ مغربی خطہ سین سیانگ سے ، جہاں لاکھوں ایغور مسلمان اور دیگر نسلی اقلیتی لوگ قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہیں ، کاٹن سے تیار اشیاءکی در آمدات پر پابندی عائد کر دی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *