نئی دہلی:سیرو مالابار میڈیا کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی ریاست کیرل میں عیسائی لڑکیوں کو لو جہاد کے ذریعے سبز باغ دکھا کر دھوکے سے یا جبراً اسلام قبول کرایا جا رہا ہے۔ جنہیں داخل اسلام کیا گیا ان میں سے زیاد تر داعش (آئی ایس آئی ایس)میں شامل ہو گئیں۔
انہیں دوسرے ملکوں مثلاً شام اور افغانستان و کچھ دیگر اسلامی ممالک لے جا کر جنسی زیادتی یا دہشت گرد انہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
کیرل کیتھولک بیشپس کانفرنس (کے سی بی سی) نے ان واقعات پر اظہارتشویش کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات سیکولرزم اور سماجی ہم آہنگی کے منافی ہیں، اور بتایا کہ 2005 سے 2012 کے درمیان لو جہاد کے چار ہزار سے زیادہ معاملات ہوچکے ہیں، لیکن ریاستی پولیس اس ضمن میں کوئی کارروائی نہیں کر رہی ۔
اور اسے اسلام میں نہیں دہشت گردی میں شامل ہونا قرار دیا جس کے خلاف مسلم معاشرہ بھی ہے، سیرو مالابار سینود نے لو جہاد کو حقیقت بتاتے ہوئے پولیس کاروائی کا مطالبہ کیا اور عیسائی معاشرے کو اس کے خلاف آگاہ کرنے کے لیے مہم چلانے کو کہا۔
حالانکہ کیرلا وزیر خزانہ تھومس ائجیک نے ان الزامات کو واقعتاً غلط قرار دیا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب اس معاملہ کی سنگینی دیکھتے ہوئے سیر مالا بار میڈیا کمیشن نے آواز بلند کی ہے۔
رواں سال جنوری میں کمیشن نے اور گذشتہ سال ستمبر میں کمیشن کے سکریٹری فادر انتھونی تھالا چیلور اور قومی اقلیتی کمیشن کے نائب صدر جارج کورین نے یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ کورین نے26ستمبر2019کو وزیر داخلہ امت شاہ کو خط لکھ کر لو جہاد کے معاملات میں قومی تحقیقات ایجنسی سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا تھا انہوں نے شدت پسند دہشت گردوں کے لیے عیسائی سماج کو آسان ہدف بتایا۔
جنوری میں کمیشن نے رپورٹ دی تھی کہ حال ہی میں جن21 خواتین نے داعش میں شمولیت اختیار کی ہے ان میںسے نصف مسیحی برادری کی ہیں۔
انہوں نے اپنے مکتوب میں لکھا تھا کہ عیسائی برادری کی بچیوںکو بری آسانی سے نشانہ بنا لیا جاتا ہے ۔سی بی آئی، این آئی اے اور آئی بی سبھی ایجنسیاں اپنی رپورٹ دے چکی ہیں کہ ملک گیر پیمانے پر اس قسم کے واقعارت رونما ہو رہے ہیں۔
مکتوب میں یہ بھی تحریر تھا کہ مذہبی دہشت گرد گروپوں کے ذریعہ بچیوں کو ورغلانے جیسی حرکتوں اور واقعات سے نمٹنے کے لیے مکینزم موجود ہونے کے باوجود اس سے موثر انداز سے نہ نمٹنا افسوسناک اور تشویش ناک ہے۔