اسلام آباد(اے یو ایس ) پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ حکومت کی مدت مکمل کرنے اور عام انتخابات موجودہ قومی اسمبلی کی میعاد کی تکمیل کے بعد ہی کرانے کے فیصلے کو مسلم لیگ (ن) کے رہبراعلیٰ نوازشریف کی حمایت حاصل ہے۔وہ پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ان سے سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی پنجاب میں حال ہی میں منعقدہ ضمنی انتخابات میں شکست کے تناظرمیں حکومت کی مدت مکمل کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ پی ڈی ایم میں اس حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔
تاہم اتحاد کے سربراہ نے واضح کیا کہ ”نواز شریف اس وقت موجود تھے جب آخری فیصلہ تیار کیا جا رہا تھااور وہ اس فیصلے کے آخری لفظ تک شامل تھے۔اس ضمن میں طے پانے والے معاہدے کو ہم نے عوام کے سامنے رکھا تھا“۔اس فیصلے میں کیا تھا؟اس بارے میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حکومت اپنی باقی مدت مکمل کرے گی اور انتخابات اپنے وقت پرہوں گے ۔انھوں نے کہا کہ ایک بار فیصلہ طے ہونے کے بعد رائے مختلف ہوگئی تو اتحاد میں اکثریت کا فیصلہ غالب آئے گا۔
انھوں نے پی ڈی ایم کی صفوں میں مبیّنہ اختلاف کے حوالے سے سنسنی خیزی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان میں کوئی تنازعہ نہیں ہے۔انھوں نے پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ موجودہ حکومت کے لیے ملک کوسابق حکمراں جماعت کے معاشی فیصلوں اور معاہدوں سے بچانا آسان نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر حکومت ان (عمران خان)سے نہ چھینی جاتی تو آج ملک ٹکڑے ہوجاتا ۔ان کا کہنا تھا۔پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ ہرشخص کو اس چیلنج کی حساسیت کو سمجھنا چاہیے جسے موجودہ حکومت نے اقتدار میں آکر قبول کیا تھا۔انھوں نے عوام پرزوردیا کہ وہ دوبارہ پی ٹی آئی کو ووٹ نہ دیں۔پی ٹی آئی کو ووٹ دینا ملک کی تباہی میں حصہ لینے کے مترادف ہوگااور اس کا کوئی دوسرامطلب نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے متعدد ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے بعد ضمنی انتخابات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن نے بتایاکہ مخلوط حکومت نے 2018 میں منعقدہ عام انتخابات میں متعلقہ حلقے میں دوسرے نمبرپر رہنے والے امیدواروں ہی کو دوبارہ میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔پی ڈی ایم کے سربراہ نے قبائلی علاقوں میں سلامتی کے مسائل اورامن و امان کے معاملات پربھی روشنی ڈالی اور کہا کہ وہ ان خدشات وتحفظات پروزیراعظم شہبازشریف سے بات کریں گے۔انھوں نے وفاق کے زیرانتظام سابق قبائلی علاقوں (فاٹا) کے صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام پراسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا اورکہا کہ اس اقدام کے بعد ان علاقوں میں صورت حال بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوئی ہے۔