Cohen blames political opponents for firestorm over meet he publicized with Libya FMتصویر سوشل میڈیا

تل ابیب (اے یو ایس )اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کی لیبیا کی خاتون وزیر خارجہ نجلا المنقوش سے مبینہ ملاقات کی خبر کے افشائ کے بعد تل ابیب کو اندرون اور بیرون ملک ہر طرف سے سبکی اور تنقید کا سامنا ہے۔اسرائیلی اپوزیشن رہ نماو¿ں نے وزیر خارجہ کی طرف سے لیبی وزیر خارجہ سے ملاقات کا قبل از وقت انکشاف کرنے پر انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اپوزیشن کاکہنا ہے کہ ایلی کوہن کی اس حرکت سے اسرائیلی سفارت کاری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور اسرائیل پر دوسرے ممالک کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔پیر کے روز اسرائیلی حزب اختلاف کے رہ نماؤں نے وزیر خارجہ ایلی کوہن کو لیبیا کی ہم منصب نجلا المنقوش کے ساتھ ان کی حالیہ ملاقات کی خبریں افشا کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے اسے “اسرائیلی سفارت کاری کے لیے ایک بہت بڑا دھماکہ ” قرار دیا۔سیاسی مخالفین میں سے بعض نے اس مسئلے کو “کوہن کی ناتجربہ کاری کا ثبوت” قرار دیتے ہوئے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ سیاسی رہ نماو¿ں میں سے بعض نے اسے بنجمن نیتن یاھو کی حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہوئے اس سفارتی غلطی کی تمام تر ذمہ داری ان پر عاید کی۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اپنی داخلی اور خارجی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے اس طرح کی خبریں نشر کررہی ہے۔حزب اختلاف کے سربراہ یائرلپیڈ نے ایک بیان میں کہا کہ ”دنیا سرائیل اور لیبیا کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کےانکشاف کو غیر ذمہ دارانہ سمجھتی ہے۔ دوسرے ممالک اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کیا یہ [اسرائیل] وہ ملک ہے جس کے ساتھ منظم خارجہ تعلقات ہوسکتے ہیں؟ کیا یہ ایک ایسا ملک ہے جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟سابق حکومت میں وزیر خارجہ اور بعد میں وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دینے والے لپیڈ نے کہا کہ ماضی میں ایسی ملاقاتوں کو خفیہ رکھنے سے ان ممالک کے ساتھ اعتماد پیدا کرنے میں مدد ملی جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات نہیں تھے لیکن بعد میں یہودی ریاست کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے، لیکن جب ایلی کوہن جیسے شخص کو جس کا اس میدان میں کوئی تجربہ نہیں کو وزیر خارجہ مقرر کیا جائے تو اسی طرح کے تماشے ہوتے ہیں۔ نتیجہ الٹا ہوتا ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ لیبیا کی وزیر خارجہ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ غیر پیشہ ورانہ، غیر ذمہ دارانہ اورسیاسی فہم و فراسات کی کمی کا نتیجہ ہے۔ایک دوسرے سیاسی رہ نما بینی گینٹز نے کہا کہ “جب سب کچھ تعلقات عامہ اور سرخیوں کی خاطر بغیر کسی ذمہ داری یا سوچے سمجھے بغیر کیا جاتا ہے تو ایسا ہی ہوتا ہے”۔عبرانی میڈیا نے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے حوالے سے کہا کہ کوہن نے اسرائیل کے خارجہ تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔انھوں نے مثال کے طور پر انڈونیشیا کے فوجی بغاوت سے قبل کوہن کی لیکس کی وجہ سے اسرائیل کے ساتھ روابط بند کرنے کے فیصلے کے ساتھ ساتھ نائجر کا حوالہ دیا۔میڈیا نے خبر دی کہ اسرائیلی وزارت خارجہ اپنے وزیرخارجہ کوہن کے رویے کی وجہ سے دیگ کی طرح ابل رہی ہے۔ یہاں تک کہ وزیر کے آدمی بھی اس پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کا رویہ “جلد بازی پر مبنی اور غیر ذمہ دارانہ” تھا۔ انہوں اسرائیلی سفارتی میدان کو ایسا نقصان پہنچایا ہے جسے پورا کرنے میں برسوں لگیں گے۔یہ معلوم ہے کہ نیتن یاہو حکومت جو اسرائیل کی تاریخ میں پہلی خالص دائیں بازو کی حکومت ہے کو شدید تنقید کا سامنا ہے کیونکہ اس نے اپنے کام کے کسی بھی شعبے میں کامیابی حاصل نہیں کی بلکہ خارجہ پالیسی میں دراڑیں پیدا کی ہیں۔ امریکی انتظامیہ کئی مہینوں سے یہ دعوے کررہا ہی تھی کہ اسرائیل اور بعض عرب ممالک کےدرمیان روابط ہوئے ہیں جن کا بعد میں اعلان کیا جائے گا۔وزیر خارجہ کوہن، جنہیں صرف ایک سال کے لیے وزیر خارجہ مقرر کیا گیا تھا،اس سال کے آخر میں ان کے عہدے کی مدت ختم ہو رہی ہے۔ان کی جگہ وزیر توانائی یسرائیل کاٹز کو وزیر خارجہ مقرر کیا جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *