کراچی: (اے یو ایس))پاکستان کی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ کابینہ کی کمیٹی برائے قانون نے جبری گمشدگی کو مجرمانہ فعل قرار دینے کا قانون منظور کر لیا ہے جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق شکایات کا ازالہ ہو گا۔منگل کو ایک ٹوئٹ میں انہوں نے بتایا کہ کمیٹی سے منظوری کے بعد یہ بل کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا جس کے بعد یہ بل پارلیمان کے سامنے رکھا جائے گا۔اگرچہ فی الحال اس قانون کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن پاکستان میں جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کا مطالبہ کافی عرصے سے کیا جا رہا تھا اور اس بارے میں قانون سازی کئی برسوں سے زیر التوا تھی۔اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کے بین الاقوامی اور ملک میں کام کرنے والے ادارے جن میں انسانی حقوق کمیشن پاکستان بھی شامل ہیں، عرصہ دراز سے اس معاملے پر قانون سازی کی ضرورت پر زور دے رہے تھے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی کئی مواقع پر اسے سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف قانون سازی کا وعدہ کیا تھا۔دریں اثنا انسانی حقوق کی معروف کارکن زہرہ یوسف کے خیال میں یہ مثبت سمت میں ایک اہم قدم ہے جسے سراہنے کی ضرورت ہے۔زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں ابھی بھی بہت سا کام ہونا باقی ہے۔ ان کے بقول انسانی حقوق کے منافی سرگرمیاں پہلے ہی پاکستان میں جرم ہیں۔ تاہم پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق اقوامِ متحدہ کے کنونشن کا ر±کن بن جائے۔زہرہ یوسف نے کہا کہ جبری گمشدگی کو ملک میں جرم قرار دیے جانے کے بعد اس کی سزا سے استثنیٰ کا عمل مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔ اس کا شکار ہونے والے افراد کو معاوضے کی ادائیگی یقینی بنانا ہو گی۔انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ملک میں اکثر قانون سازی کے بعد اس پر عمل درآمد کا مسئلہ بھی درپیش رہا ہے۔زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ جبری گمشدگیوں کے الزامات اگر سیکیورٹی ایجنسیز پر لگیں تو انہیں قانون کے دائرے میں لانا بہت مشکل ہو گا۔ لیکن اس کے باوجود اس قانون میں پیش رفت ہونا مثبت قدم ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کی ملک میں 2020 کے دوران انسانی حقوق کی صورتِ حال پر سامنے آنے والی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے کئی وعدوں کے باوجود بھی بل منظور نہیں کیا جا سکا۔انسانی حقوق کمیشن کے مطابق 2011 سے پاکستان میں کام کرنے والے جبری گمشدگیوں کے انکوائری کمیشن میں سب سے زیادہ دو ہزار 942 کیس خیبر پختونخوا میں سامنے آئے ہیں۔رپورٹ میں انسانی حقوق کے کارکن ادریس خٹک کی گمشدگی کے چھ ماہ بعد انہیں سرکاری تحویل میں ہونے کی تصدیق اور صحافی مطیع اللہ جان کے اغوا کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ادھر سندھ پولیس نے منگل کو پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ صوبے میں اس وقت لاپتا افراد کی تعداد 341 ہے۔ یہ رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کے کیسز سننے والے بینچ کے روبرو پیش کی گئی ہے۔رپورٹ کے مندرجات کے مطابق کراچی سے اس وقت کل 307 افراد لاپتا ہیں جب کہ حیدرآباد سے 17، سکھر سے نو، لاڑکانہ سے سات اور میرپور خاص سے بھی ایک شخص کو پولیس نے لاپتا قرار دیا ہے۔ پولیس ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ یہ ان افراد کا ڈیٹا ہے جن کے بارے میں اب تک کوئی معلومات نہیں مل سکی ہے کہ وہ کہاں ہیں۔