Congress leaders themselves digging Party's graveتصویر سوشل میڈیا

سہیل انجم

نریندر مودی جب 2014 کا پارلیمانی انتخاب لڑ رہے تھے اور بی جے پی نے ان کو وزیر اعظم کا امیدوار اعلان کر رکھا تھا تو انھوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ ملک کو ”کانگریس مکت“ کر دیں گے۔ یعنی ہندوستان کو کانگریس سے نجات دلا دیں گے، کانگریس کو صفحہ¿ ہستی سے مٹا دیں گے۔ بی جے پی نریند رمودی کے اس خواب میں تعبیر کا رنگ بھرنے کی پوری پوری کوشش کر رہی ہے۔ لیکن صرف وہی اس کی کوشش نہیں کر رہی ہے بلکہ خود کانگریس بھی اس خواب کو شرمندہ¿ تعبیر کرنا چاہتی ہے اور سچ پوچھو تو وہ اس کام میں بی جے پی سے کہیں زیادہ تن من دھن سے لگی ہوئی ہے۔ بی جے پی پر الزام ہے کہ وہ جن ریاستوں میں کانگریس کی حکومتیں ہیں وہاں وہ توڑ پھوڑ کر رہی ہے۔ لیکن کانگریس تو خود اپنے آپ کو توڑ پھوڑ کر رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس نے اپنا وجود مٹا دینے کا تہیہ کر لیا ہے۔ اس لیے اگر ہندوستان واقعی کانگریس مکت ہو جائے یعنی کانگریس کا وجود صفحہ ہستی سے نابود ہو جائے اور وہ تاریخ کا ایک حصہ بن جائے تو اس کا کریڈٹ بی جے پی کو نہیں بلکہ خود کانگریس کو جائے گا۔

کانگریس ایک تاریخی پارٹی ہے۔ اس کی عمر 135 سال ہو چکی ہے۔ اس نے ملک کی آزادی کی لڑائی میں جو کردار ادا کیا تھا وہ ناقابل فراموش ہے۔ آزاد ہندوستان میں ایک طویل عرصے تک ا سی نے حکومت کی۔ پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اسی پارٹی کے صدر تھے۔ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی بھی اسی پارٹی کے تھے۔ نرسمہاراؤ بھی اسی پارٹی کے لیڈر تھے اور آخر میں ڈاکٹر من موہن سنگھ بھی اسی کانگریس پارٹی کے رہنما تھے۔ جنتا پارٹی کی حکومت مرار جی دیسائی کی قیادت میں بنی تھی۔ درمیان میں ایک بار وی پی سنگھ کی حکومت بنی، ایک بار چندر شیکھر کی، ایک بار دیوے گوڑا کی اور ایک بار اندر کمار گجرال کی۔ یہ حکومتیں ہوا کے جھونکے کی مانند آتی جاتی رہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی پانچ سال کی مدت مکمل نہیں کی۔ البتہ اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں چھ سال تک بی جے پی کی حکومت رہی۔ اور اب نریندر مودی کی قیادت میں پہلے پانچ سال تک حکومت رہی اور اب دوسری پانچ سال کی مدت کے لیے چل رہی ہے اور دوسری مدت کے ڈیڑھ سال پورے ہو چکے ہیں۔ اتنی شاندار تاریخ رکھنے کے باوجود کانگریس اب تاریخ کا حصہ بن جائے تو یہ بہت افسوسناک بات ہوگی۔ کسی بھی جمہوری ملک میں اپوزیشن کی اہمیت حکومت سے کم نہیں ہوتی۔ ہندوستان میں جو اپوزیشن ہے وہ کانگریس کے دم سے ہے۔ یہی ایک ایسی پارٹی ہے جو ملک گیر وجود رکھتی ہے۔ ورنہ دوسری اپوزیشن پارٹیاں تو علاقائی ہیں اور ان میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ حکومت کے سامنے ایک مضبوط حزب اختلاف کا کردار ادا کر سکیں۔ لیکن کچھ بھی ہو وہ کتنی ہی کمزور ہو گئی ہو پھر بھی کانگریس پارٹی ہی ایک ایسی جماعت ہے جو اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتی ہے اور کسی حد تک کر رہی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بجا ہوگا کہ اگر یہ پارٹی ملک سے ختم ہو جاتی ہے تو یہ جمہوری ہندوستان کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔لیکن یہ تاریخی پارٹی جس نے انگریزوں کی غلامی سے ہندوستان کو نجات دلائی اب ایک خاندان کی غلامی میں پھنس کر تباہ ہو رہی ہے۔ یہ خاندان ہے نہرو گاندھی خاندان۔ اب اس خاندان میں صرف دو افراد بچے ہیں اور وہ ہیں سونیا گاندھی اور راہل گاندھی۔ پرینکا گاندھی چونکہ شادی شدہ ہیں اس لیے وہ اب گاندھی خاندان کی نہیں بلکہ واڈرا خاندان کی فرد ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت سے لوگ ان میں اندرا گاندھی کا عکس دیکھتے ہیں اور بہت سے کانگریسی لیڈر اور کارکن ان کے پارٹی صدر بنائے جانے کی تمنا رکھتے ہیں۔ اتنی بڑی پارٹی ایک مختصر سے خاندان کی غلامی میں جکڑ کر اپنے آپ کو تباہ کر لے یہ اس کے لیے بھی بہت بڑی بدقسمتی کی بات ہوگی۔ پارٹی کے اندر صدارت یا قیادت کے سلسلے میں آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔

ایک طبقہ یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ پارٹی کے اندر صدارت کا انتخاب ہونا چاہیے۔ کیونکہ سونیا گاندھی اب معمر ہو چکی ہیں اور ان کی صحت بھی ٹھیک نہیں رہتی۔ وہ دورے کرکے پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ بہت سے لوگ راہل گاندھی کی شخصیت میں پارٹی کی قیادت کا مستقبل دیکھتے ہیں۔ لیکن ان کو بھی صدر بنا کر دیکھ لیا گیا۔ 2019 کے عام انتخابات سے قبل وہ پارٹی کے صدر تھے۔ لیکن الیکشن میں پارٹی کی شرمناک شکست کے بعد وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ کافی دنوں تک پارٹی بغیر صدر کے رہی۔ بالآخر پھر سونیا گاندھی کو عبوری صدر بنایا گیا۔ لیکن پاٹی کے اندر کھینچ تان اور اٹھا پٹخ جاری رہی۔ آپسی لڑائی کی وجہ سے مدھیہ پردیش کی حکومت چلی گئی۔ راجستھان کی حکومت جاتے جاتے بچی۔ پارٹی میں کئی سطحوں پر لڑائی چل رہی ہے۔ ایک جنگ گاندھی خاندان کے وفاداروں اور غیر وفاداروں کے درمیان ہے تو ایک جنگ سینئر لیڈروں اور نئی نسل کے درمیان ہے۔ گاندھی خاندان کے وفادار باہر کے کسی کو پارٹی کا قائد نہیں دیکھنا چاہتے اور پرانے گھاگھ اور سینئر لیڈران نئے لوگوں کو آگے بڑھنے دینا نہیں چاہتے۔ پارٹی اسی میں تباہ ہو رہی ہے۔

گزشتہ دنوں پارٹی کے 23 سینئر رہنماؤں نے صدر کے نام ایک مکتوب لکھا جس میں ایک ایسے صدر کی ضرورت پر زور دیا جو متحرک ہو، ہر جگہ نظر آئے اور جس تک سب کی رسائی ہو سکے۔ پہلے تو اس خط کو دبایا گیا۔ لیکن ایک انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس نے اسے لیک کر دیا۔ پھر کیا تھا۔ ایک طوفان برپا ہو گیا۔ پارٹی کی اعلیٰ فیصلہ ساز باڈی کانگریس ورکنگ کمیٹی کا آن لائن اجلاس طلب کیا گیا۔ لیکن میٹنگ کے دوران خط میں اٹھائے جانے والے ایشوز پر بات کرنے کے بجائے اس کی ٹائمنگ پر اعتراض کیا گیا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ یہ خط ایسے وقت لکھا گیا جب سونیا گاندھی اسپتال میں تھیں اور پارٹی راجستھان میں ایک بحران میں گرفتار تھی۔ انھوں نے اشاروں میں یہ بھی الزام لگایا کہ یہ خط بی جے پی کے اشارے پر اور اس کے ساتھ ساز باز کرکے لکھا گیا ہے۔ اس پر زبردست ہنگامہ ہوا۔ خط پر دستخط کرنے والوں میں غلام نبی آزاد، کپل سبل، ششی تھرور اور آنند شرما جیسے سینئر لیڈر شامل تھے۔ غلام نبی آزاد اور کپل سبل ہتھے سے اکھڑ گئے۔ آزاد نے کہا کہ اگر بی جے پی سے ساز باز کا الزام ثابت ہو جائے تو وہ تمام منصبوں سے استعفیٰ دے دیں گے۔ سبل نے بھی ایک ٹویٹ کیا لیکن پھر اسے ڈلیٹ کر دیا اور دوسرا ٹویٹ کیا کہ راہل نے ان سے ذاتی طور پر کہا ہے کہ انھوں نے ایسا الزام نہیں لگایا۔ اجلاس ختم ہونے کے بعد سونیا اور راہل کو آزاد کی ناراضگی کا احساس ہوا لہٰذا دونوں نے ان کو فون کیا۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ایک روز بعد آزا دنے بیان دیا کہ جنھیں صدر بنایا گیا ہے انھیں ایک فیصد ووٹ بھی نہیں ملے گا۔ کپل سبل بھی انٹرویو دے رہے ہیں اور خط میں اٹھائے گئے ایشوز پر بات کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ ششی تھرور بھی بول رہے ہیں اور آنند شرما بھی۔ لیکن گاندھی خاندان کے وفادار ان لوگوں کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں جنھوں نے خط لکھا تھا۔ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی بھی خط لکھنے والوں سے ناراض ہیں۔

جبکہ سچائی یہ ہے کہ خط میں جن باتوں کو اٹھایا گیا ہے وہ بالکل حقیقی باتیں ہیں حقیقی مسائل ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان پر گفتگو نہیں ہو رہی ہے بلکہ وفاداری ثابت کرنے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہاں اجلاس میں یہ فیصلہ ضرور ہوا کہ چھ ماہ کے اندر آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا مکمل اجلاس بلایا جائے گا جس میں صدر کا انتخاب ہوگا۔ کانگریس کمیٹی میں تقریباً دس ہزار مندوبین پورے ملک سے ہیں۔ لہٰذا فیصلہ ہوا کہ کرونا دور میں یہ اجلاس نہیں بلایا جا سکتا لیکن چھ ماہ کے اندر بلا لیا جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان چھ مہینوں کے درمیان اور کیا کیا ہوتا ہے۔ کیا خط پر دستخط کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے۔ اگر ہوتی ہے تو وہ پارٹی کے تابوت میں ایک اور کیل ہوگی۔ سونیا اور راہل اور دیگر لیڈروں کو چاہیے کہ اگر وہ پارٹی کو بچانا چاہتے ہیں تو انھیں فوراً الیکشن کرانا چاہیے اور کسی ایسے لیڈر کے ہاتھ میں کمان سونپنی چاہیے جو حوصلہ مند ہو، پورے ملک کے دورے کر سکے اور جس میں اتنی صلاحیت ہو کہ وہ پوری پارٹی کو ایک چھتری کے نیچے لے آئے۔ ابھی اس کا امکان کم نظر آتا ہے۔ ابھی تو یہی دکھائی دے رہا ہے کہ سارے بڑے لیڈران گورکن بن گئے ہیں اور سب مل کر پارٹی کی قبر کھود رہے ہیں۔
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *