برطانیہ کے خفیہ جاسوسی ادارے ملٹری انٹیلی جنس سیکشن 6(ایم آئی 6) کے سابق سربراہ سر رچرڈ ڈیر لوو نے دعویٰ کیا ہے کہ کورونا وائرس چین کی ایک لیبارٹری سے اتفاق سے باہر نکل کر وبا کی شکل میں پھیل گیا ۔ ٹیلی گراف کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے سر رچرڈ ڈیئر لوونے کہا کہ انھوں نے ایک ”اہم “نئی سائنسی رپورٹ دیکھی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وائرس قدرتی طور پر پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ انسان ساختہ تھا جسے چینی سائنس دانوں نے بنایا تھا۔ سابق انٹیلی جنس سربراہ نے کہا کہ یہ واضح اور کھلا انکشاف دنیا بھر میں ہونے والی اموات اور اقتصادی تباہی کی چین کے ذریعہ تلافی کا امکان بڑھا دےا گا۔
اس کا علم ایسے وقت میں ہوا ہے جب چین اس کو بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ اس کی وضاحت کرے کہ گذشتہ سال اس وائرس نے کس طرح پھیلنا شروع کیا تھا۔تاہم بین الاقوامی سائنس دان اس پر کم و بیش متفق ہو گئے کہ یہ وائرس انسانی آبادی میں داخل ہونے سے پہلے حیوانوں خاص طور پر چمگادڑ وںیا پینگوئینوں میں پھیلا ۔لیکن 75 سالہ سر رچرڈ نے اس ہفتے شائع ہونے والے ناروے۔برطانوی تحقیقاتی ٹیم کے ایک سائنسی مقالے کی نشاندہی کی جس میں یہ دعویٰ کیا گیاہے کہ کوویڈ 19 کے جینیاتی سلسلے میں جو اشارے ملے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ کلیدی جراثیم قدرتی طورپر پیدا نہیں ہوئے ہوں گے بلکہ انہیں ”داخل“ کیا گیا ہے ۔
سر رچرڈ نے کہا کہ ابتدا میں ، چینی حکومت نے وائرس کے مرکز اور اس بحران سے نمٹنے چینی حکومت کے اقدامات سے متعلق کسی بھی بحث کو”لاک ڈاؤن“کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ حادثاتی تھا۔سر رچرڈ نے ٹیلی گراف کو مزید بتایا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر چین کو کبھی ذمہ داری قبول کرنی پڑی تو کیا وہ اس کی تلافی کرے گا؟ میرے خیال میں وہ دنیا کے ہر ملک کو یہ سوچنے پر مجبور کر دے گا کہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں کیسا برتاو¿ کر ناہے اور عالمی برادری چینی قیادت کے ساتھ کیسا سلوک کرے گی۔
رچرڈ نے ، جو 1999 اور 2004 کے درمیان ایم آئی6کے سربراہ تھے ، لندن یونیورسٹی کے سینٹ جارج اسپتال کے پروفیسر انگوس ڈالگیش ، اور وائرس سے متعلق امراض کے ماہر ناروے کے بر گر سورینسن کی تیار کردہ حیرت انگیز تحقیق کا حوالہ دیا۔ ان کے مقالوں میں ، سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ سارس ،کوویڈ2 اسپائیک سطح پر رکھے ہوئے حصوں کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ وائرس خود کو انسانی خلیوں سے کس طرح جوڑتا ہے۔
ہمارے مطالعہ کے مطابق سارس ۔کو ویڈ 2 اسپائیک کسی دوسرے سارس سے کافی مختلف ہے ۔کاغذ کا کہنا ہے کہ ‘اس نے خبردار کیا ہے کہ ویکسین تیار کرنے کی موجودہ کوششوں کی ناکامی مقدر ہو کی ہے کیونکہ وائرس کی اصل اسباب کو کوئی سمجھ ہی نہیں سکا ہے اور غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ اس کے علاج کے لئے ، محققین نے مسٹر سورینسن کی سربراہی میں ناروے کی ایک دوا ساز کمپنی ایمونر اے ایس نے اپنا ٹیکہ تیار کرنا شروع کر دیا ہے ۔ سر رچرڈ نے اس تحقیق کو کسی مباحثے میں، جو اب یہ جاننے کے لیے شروع ہو رہی ہے کہ یہ وائرس کیسے پیدا ہوا ، کیسے باہر نکلا اور وبا کی شکل میں پھوٹ پڑا ، ایک بہت اہم جزو اور تعاون قرار دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے خیال میں یہ خاص مضمون بہت اہم ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اس سے بحث بدل جائے گی۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ڈیلگیش / سورینسن کی رپورٹ متعددبار دوبارہ لکھی جا چکی ہے ۔
ایک ابتدائی نظریے میں، جس کا علم ٹیلی گراف کو ہواتھا ، اس نتیجے پر پہنچا گیا تھا کہ کورونا وائرس کو در اصل ”ووہان وائرس “ کہا جانا چاہئے اور اس نے کسی قسم کے شک و شبہ کے بغیر یہ ثابت کرنے کا دعویٰ کیا ہے کہ ”کوویڈ 19 وائرس بنایاگیا ہے“۔رپورٹ تیار کرنے والوں نے اتفاق رائے سے یہ کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ان نتائج کی سیاسی اہمیت ہوسکتی ہے۔ اور پریشان کن سوالات اٹھا ئے جا سکتے ہیں۔ اپنے ہم مرتبہ ماہرین کے تجزیہ کے لئے تقسیم کیے جانے کے بعد یہ نوٹ پس منظر میں بڑے پیمانے پر پھیل گیا تھا ، جبکہ انٹلی جنس عہدیداروں نے مبینہ طور پر اس کے نتائج کی جانچ کی۔ تاہم مصنفین میں سے ایک، جان فریڈرک موکسنیس نے ، جو ناروے کی فوج کے اعلیٰ سائنسی مشیر ہیں، اس تحقیق سے اپنا نام واپس لینے کا مطالبہ کر کے اس نوٹ کی معتبریت مشکوک کر دی۔
سمجھا جاتا ہے کہ فرانسس کرک انسٹی ٹیوٹ اور امپیریل کالج لندن کے سائنس دانوں نے بھی اس کے نتائج کو مسترد کردیا ۔ ٹیلی گراف کی نظر سے گذری مراسلت سے پتہ چلتا ہے کہ ، اپریل میں نیچر اور جرنل آف ویرولوجی سمیت موقر تعلیمی جرائد نے ابتدائی مقالے کو تحقیق” اشاعت کے لئے غیرموزوں “ قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔چین کے خلاف الزامات ہٹانے کے لئے مقالے سخت جملے حذف کر دیے گئے اور پھر دوبارہ تحریر کیے گئے جائزے کو کافی سائنسی نوعیت سے بہتر قرار دے کر بائیو فزکس ڈسکوری کے، جس کے ادارتی بورڈ میں اسٹین فورڈ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف ڈونڈی کے معروف سائنسداں تھے، سہ ماہی جائزہ میں اشاعت کے لئے قبول کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ٹیلی گراف کی نظر سے گذرا مطالعہ بتاتا ہے کہ کوویڈ19-کی ایسی خاصیتیں سامنے آئی ہیں جو اس امر کو ثابت کرتی ہیں کہ یہ قدرتی طور پر پیدا نہیں ہوا بلکہ ایسے اشارے ملے ہیں کہ کسی مقصد کے تحت بنایا گیا ہے۔یہ ”انسانی بقائے باہم کے لئے تیار کیا گیا قابل ذکر وائرس تھا۔ اور امکان ہے کہ وہ ” زبردست قوت کے عجیب الخلقت وائرس “پیدا کرنے کے لئے ووہان لیب میں کیے گئے تجربے کا نتیجہ ہوگا۔
نوٹ میں آخر میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کویوڈ۔19 وبائی مرض حیوانوں کی بیماری سے پیدا ہوئے ہیں ، ان کے ثبوت کو ترغیبی بتانے پر زور دینے سے پہلے انہیں واضح طور پر یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ان کا یہ خیال کیوں غلط ہے۔سر رچرڈ نے کہا ، ”ابھی تک اس مقالہ کو اشاعت کے لیے کسی بھی سائنسی جریدے نے قبول نہیں کیا ہے۔“ ”یہ (پہلا) مضمون ایک… جریدے کو پیش کیا گیا تھا ، جس نے اسے موصول ہونے کے ایک ہفتہ کے اندر اس کو شائع کرنے سے انکار کردیا تھا اور اسی عرصے میںوائرس سے متعلق48 گھنٹوں کے اندر دو یا تین چینی مضامین اشاعت کے لئے قبول کر لیے گئے ۔ اس روشنی میں میرا مطلب ہے ، چونکہ وائرس کے بارے میںبحث بڑھتی جارہی ہے ، میرا خیال ہے کہ یہ سارا مواد شائع کیا جائے گا اور متعدد افراد پریشان ہوجائیں گے۔ ، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ ، چینیوں کا شاید اپنے
جرائد میں بہت کچھ عمل دخل ہوگا کہ کیا شائع کیا جانا چاہئے اور کیا نہیں۔
چینی حکومت کا اسی پر اصرار ہے کہ یہ وبا سال گذشتہ کے اواخر میں ووہان شہر میں ”مچھلی منڈی“ سے شروع ہوئی تھی۔ لیکن نقادوں نے سوال اٹھایا ہے کہ ابتدا میں جن لوگوں میں یہ مرض پایا گیا ان کا نہ تو ان علاقوں سے کوئی رابطہ تھا اور نہ وہاں کسی سے کوئی تعلق تھا ۔ ووہان میں دو لیبارٹریوں، ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی اور ووہان مرکز برائے انسداد مرض، جو کورونا وائرس کا مطالعہ کر رہی ہیں، نے ممکنہ حقیقی ذرائع بتائے ہیں۔ پھیلنے کا سر رچرڈ ز کا کہنا ہے کہ سائنس دانوں کے خفیہ تجربات کے دوران کوویڈ۔19 کسی طرح بائیو سکیورٹی میں ا غفلت سے باہر نکل گیا ہوگا۔ “اگر آپ کوئی غلطی کربیٹھتے ہیں تو یہ ایک پر خطر کامہے“۔ واقعات کا سلسلہ دیکھا جائے:چینی قیادت نے وبائی امراض کے مرکز کے حوالے سے مباحثہ کو جس طرح روکا اور لوگوں کو گرفتار یا خاموش کیا“ وہ کیا کہانی بیان کرتی ہے ۔” میرا مطلب ہے کہ ہم جس سمت دیکھ رہے ہیں اس میں ہمیں واقعتا کسی بھی قسم کے شبہات میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ سر رچرڈ زنے کہا کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ چینیوں نے جان بوجھ کر وائرس چھوڑا لیکن چین پر الزام لگایا کہ اس نے اس کے پھیلاو¿ کے پیمانے کو چھپایا۔یقینا چینیوں کومحسوس ہوا ہوگا ، اگر ہمیں وبائی مرض کا سامنا کرنا پڑے تو ہمیں اس پر قابو پانے کے لئے اتنی زیادہ کوشش نہیں کرنی چاہئے کہ وہ رک جائے تاکہ ہمارے حریفوں کو بھی ووہی نقصانات جھیلنا پڑیں جو ہمیں ہوئےہیں۔
انہوں نے حکومت برطانیہ کو تلقین کی کہ برطانیہ کے نئے 5جی نیٹ ورک بنانے میں چینی ٹیلی کوم فرم ہووائی کی خدمات حاصل کرنے اور این ایچ ایس صحتی رضاکاروں و کارکنان کے لیے سستے پرسنل پروٹیکٹیو ایکوئپمنٹ(پی پی ای) تیار کرنے کے لیے چینی فیکٹریوں پر انحصار کرنے کا منصوبہ ترک کر دے۔ یہ کافی اہم ہئے کہ ہم اپنے اہم بنیادہی ڈھانچے چینی مفادات کو نہ سونپ دیں۔
سر رچرڈزنے ستمبر 2015میں ایک سابق چانسلر جارج ا وسبورن کے یہ کہنے پر کہ برطانیہ چین کا ” مغرب میں سب سے اچھا شراکت دار“ہوگا، تنقید کی تھی میں سمجھتا ہوں کہ نوجوان سیاست دانوں کے ساتھ اور جب وہ بر سر اقتدارف تھے تو نوجوان تھے، یہ المیہ ہے کہ ان کے پاس تجربے کی کمی ہے اور وہ زیادہ معلومات نہیں رکھتے ۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ جارج ا وسبورن واقعی ایک حقیقی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کو سمجھ سکتے ہوں گے کہ وہ کس قماش کیہے؟ سر رچرڈ نے کہاکہ میرے کیریئر کا بیشتر حصہ کمیونزم اورجس طرح سے مطلق العنانہ طریقہ سے یہ جماعتیں چلائی جا رہی ہیں اور جس طرح یہ حقوق انسانی اور قوانین کی پامالی کرتی ہیں ان کا سامنا کرنے میں گذرا۔ اور میرا مطلب ہے کہ جارج اوسبورن نے یہ سب نظرانداز کردیا۔ اس ہفتے کے اوائل میں چینی سفیر متعین برطانیہ لیو ژاو¿ومنگ نے یہ اصرار کرتے ہوئے کہ چین کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں ہے کہا کہ چین اس وبائی کے مرکز کے حوالے سے بین الاقوامی تحقیقات کا خیرمقدم کرے گا ۔چین کا ریکارڈ صاف ہے۔ وہ وقت و تاریخ کے امتحان میں کھرا اترے گا۔