مولانامحمدقمرانجم قادری فیضی
سدھارتھ نگریوپی
ہندوستان کے عظیم شاعر بشیر بدرصاحب نےبہت پہلے ایک شعر کہاتھا،
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائےگاجوگلے ملوگے تپاک سے،
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو،
کرونا وائرس کےخلاف آج کل ایک لفظ بہت زوروشور کےساتھ سننے کو مل رہاہے وہ ہے ”سوشل ڈسٹینسنگ“
اس کا سیدھا سادھا اور صاف مطلب ہے کہ اگرکوئی شخص کسی بھی طریقے سے کرونا وائرس کا مریض ہے تو اسے چاہئے کہ دیگر لوگوں کے قریب جانے سے اجتناب کرے، اور دوسرے لوگ بھی اسکے قریب جانے سے پرہیز کریں، اسکے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے ہاتھ ملانے سے پرہیز کریں، اور تقریباً 6 فٹ کی دوری رکھیں، تاکہ آپ اس وبا ئی مرض سے خود کوبچاسکیں، ایک مطالعے کے مطابق 60 ساٹھ سالہ بزرگ نیز چھوٹے بچوں کواور کسی مرض میں مبتلا شخص کو کروناوائرس کا سب سے زیادہ خطرہ لاحق رہتاہے اور جلدازجلداس مرض میں مبتلا ہونے کے زیادہ چانس ہوتے ہیں، ایسی صورت حال میں اس طرح کی بیماریوں کے مریضوں سے دوررہنے کی اشد ضرورت ہے ۔جہاں تک ممکن ہو بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر جانے سے گریز کریں، اور لوگوں سے بات چیت کے دوران چھ فٹ کی دوری بنائے رکھیں، یہ سب کےلئے لازم وضروری ہے۔
”سوشل ڈسٹینسنگ“کا مکمل طریقہ اس مقصد پر مشتمل ہے کہ کرونا کو مزید اور پھیلنے وپیداہونے سے روکاجائے،اس بارے میں ڈاکٹروں اور ماہرین وائرس کا کہنا ہے کہ بھلے ہی ایک لمبی ساعت میں ہومریضوں کی تعداد برابرہو، لیکن اگر اس وائرس کی پکڑکی رفتار دھیمی رہے تو اس حالت میں مریضوں کو سنبھالنا آسان ہوگا، اس مرض کا پھیلاؤ اگر برق رفتاری سےنہ ہو تواسپتالوں اور ڈاکٹروں پر بوجھ کم پڑےگا، اوپر مذکورہ شعر بھلے ہی کسی اور مقصد سے لکھا گیا ہومگر آج کرونا وائرس کے خوف ودہشت زدہ ماحول میں یہ شعر بلکل صادق آرہاہے
کرونا وائرس ہاتھ ملانے اور گلے ملنے، مصافحہ ومعانقہ کی روایت کو ختم کر رہا ہے بلکہ دور سے ہی اور بغیر ہاتھ ملائے ہی سلام وکلام کرنے کی تنبیہ کررہی ہے،
اور اس پر عمل درآمد بھی شروع ہوگیاہے، مزید دانشوران قوم وملت ایک دوسرے سے ذرا فاصلے سے ملنے کی صلاح و مشورہ بھی دے رہے ہیں،
اور وائرس بچاؤ خودبھی بچو، اس لاعلاج بیماری کو مزید پھلنے پھولنے سے روکنے کے لئے خودبھی بچو اور دوسروں کو بھی بچاؤ، یہ سوچ اور فکر مثبت ہے، اور اس وائرس کو مزید پھیلنے سے روکنے میں ایک اہم قدم ماناجاتاہے عام طورپر جب کوئی شخص اس وباءکا شکارہوجاتاہے اسکے اندر اس وائرس کے ہونے کی تصدیق ہوجاتی ہے تواس کو سب سے الگ تھلگ رکھاجاتاہے دوسری صورت حال میں، یا آپ
کسی بھی ایسی جگہ سے آئے ہیں جہاں اس بیماری کے جراثیم ہیں، توآپ کےلئے لازم وضروری ہے کہ آپ خود سب سے الگ ہوجائیں، یہ کام معاشرے اور سوسائٹی کےلئے ایک اہم قدم ماناجائےگا، اور اس حال میں آپ کے اندر وائرس ہو نے کی علامات کوپہچانناآسان ہوگامزید یہ کہ دوسرے لوگوں کواس وائرس سے بچایابھی جاسکتاہے، ویسے فی الحال کےووڈ19 کا
خطرہ حدسے زیادہ تجاوزکرتاہوانظر آرہاہے،اسی خطرے کے تناظرمیں تقریباً21دنوں کےلئے لاک ڈاؤن نافذ کردیاگیاہے، تاکہ آپ اپنے گھروں میں رہیں، کئی بارکرونا وائرس سے متاثر شخص ابتدامیں بالکل تندرست اور صحت مند لگتاہے اور یہ معلوم نہیں ہوپاتاہے کہ وہ اِس خطرناک وائرس کا شکارہے، لہذاآپ اپنے گھروں میں ہی رہیں،اس وائرس کا اثراعدادوشمارکےمطابق فی الحال بہت زیادہ بڑھاہے چین میں جس وقت اس کے معاملے آنا شروع ہوئے تب کسی نے ایک بار بھی نہیں سوچاتھا کہ یہ نہ دکھنے والا ایک چھوٹاساجرثومہ دیکھتے دیکھتے اتنے کم عرصے میں دنیا کے100 ملکوں کو اپنی زد میں لے لے گا، اگر دنیا کی 80% فیصدآبادی اسی مرض کا شکار ہو جائے تو تو ایک فیصدکی شرح اموات تعدادوشمارکو بہت بڑابنادے گی ۔ اس وائرس کےروک تھام کےلئے حکومت ہر طرح کی مدد کرنےکی کوشش کررہی ہے، لگاتار طور طریقے بتائے جارہے ہیں اور اس پر عمل بھی کیاجارہاہے تب پر بھی اگر یہ وائرس تیزی کےساتھ بڑھ رہاہے تو مزیدملک کی ودیگرلوگوں کی حفاظت کے تحت دیگرقدم اٹھائے جاسکتے ہیں، اور ہندوستان کے وزیراعظم مودی جی نے3مئی تک کےلئے پورے ہندوستان میں لاک ڈاؤن نافذ کروا دیاہے۔
کرونا وائرس ،طاعون و ہیضہ کی طرح ایک وباءہے اور وبائیں اللہ کی طرف سے کسی کے لئے بطور عذاب آتی ہیں۔ اور کسی کے لئے عقیدہ اور عمل کا امتحان اور کسی کے لئے درسِ عبرت ہوتی ہیں۔ اسی لئے ایسے موقعوں پر استغفار ، توبہ کی کثرت ، اور اعمالِ صالحہ کی کثرت ، صدقہ و خیرات ، یہ اعمال اہم ترین اعمال ہیں دفع مصائب و بلا کے لئے ۔ مسلمانوں کو یہ راہ اختیار کرنی چاہیئے ۔ ہر مسلمان کام اس بات پر ایمان ہے کہ زندگی و موت، صحت و مرض، خیر سگالی اور بلا و وبا بلکہ تمام نظامِ کائنات ربّ قدیر کے دستِ قدرت میں ہے ۔وہی مدبر عالم ہے۔ اس لئے بلاؤں اور وباؤں سے خوف زدہ ہونے کے بجائے ربّ قدیر کا خوف دل میں بٹھائیں اور ان معاملات میں رجوع الی اللہ سے کام لیں۔البتّہ شریعتِ اسلامیہ میں ان تمام ظاہری تدبیروں اور احتیاطوں کی اجازت ہے جو شرع کے خلاف نہ ہوں ۔اسی لئے حکومت کے وہ احکام جو ایک مسلمان کے لئے جائز شرعاً جائز ہیں ان پر عمل کریں۔
ای میل:qamaranjumfaizi@gmail.com