سہیل انجم
سال 2020 جو کہ گزر گیا، تلخ ترین یادوں سے عبارت رہے گا۔ یہ پورا سال نہ صرف ہندوستان کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے زبردست آزمائشوں کا سال رہا۔کورونا وائرس کی عالمی وبا نے پوری دنیا کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا۔ شاید پہلی بار ایسا ہوا کہ بیک وقت پوری دنیا کسی وبا کی شکار ہو گئی۔ پورا عالم ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ دنیا بھر کے اربوںانسان اپنے گھروں میں قید ہونے پر مجبور ہو گئے۔ دنیا کا کاروبار بند ہو گیا ہو۔ لوگ بیماری کے ساتھ ساتھ بھوک سے بھی مرنے لگے۔ دنیا میں کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ لاکھوں انسانوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑیں۔ اب بھی لاکھوں افراد اسپتالوں میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ اس دوران انسانی لاشوں کی بڑی بے حرمتی کی گئی۔ کرونا کے عروج کے زمانے میں کوئی شخص لاشوں کی تدفین و تکفین تو دور ان کو ہاتھ لگانے کا بھی روادار نہیں ہوتا تھا۔ کورونا میں مرنے والے کے اہل خانہ کو میت کا چہرہ تک دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کو نہلانے دھلانے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ اسپتال کا عملہ لاش کو پلاسٹک میں لپیٹ کر دے دیتا اور اسی طرح اس کی تدفین کر دی جاتی یا کریا کرم کر دیا جاتا۔ اس ایک سال میں انسانی جانوں کا اتنے بڑے پیمانے پر زیاں ہوا کہ متعدد قبرستانوں میں تدفین کی جگہ نہیں بچی۔ شمشان گھاٹوں پر لاشوں کو نذر آتش کرنے کی گنجائش ختم ہو گئی۔ کئی کئی روز کے بعد کریا کرم کا نمبر آتا۔ اس طرح اگر ہم دیکھیں تو ایسے مناظر صرف ہندوستان میں ہی نہیں دیکھے گئے بلکہ پوری دنیا میں دیکھے گئے۔ایسا نہیں ہے کہ پہلی بار کوئی وبا دنیا میں آئی اور اس نے انسانوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ ہاں غالباً یہ پہلی بار ہوا کہ پوری دنیا بیک وقت وبا کے نرغے میں آگئی۔
اس سے پہلے 1968میں انفلوینزا نامی ایک وائرس آیا تھا جو ہانگ کانگ، سنگا پور،ویتنام، فلپنس، ہندوستان، آسٹریلیا، یوروپ اور امریکہ میں پھیلا تھا اور اس میں دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے پہلے 1956 سے 1958 کے درمیان ایشین فلو آیا تھا جس نے چین، سنگاپور، ہانگ کانگ اور امریکہ کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔ اس میں بیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔اس سے پہلے 1918میں بھی انفلوینزا نے کئی ملکوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔ وہ دو سال تک رہا۔ اس بیماری نے دو کروڑ سے پانچ کروڑ انسانوں کو نگل لیا تھا۔ 1910 سے 1911 کے درمیان طاعون آیا تھا ۔ وہ ہندوستان سے شروع ہوا تھا اور پھر مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، مشرقی یوروپ اور روس تک پھیل گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں آٹھ لاکھ انسانوں کی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ اور پیچھے جائیں تو 1889 سے 1890 کے درمیان ایشیاٹک فلو یا رشین فلو نامی وبا پھیلی تھی۔ اس نے وسطی ایشیائی ممالک، کناڈا اور گرین لینڈ کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔ اس بیماری کے سبب دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 1852 سے 1860کے درمیان طاعون کی ایک اور وبا پھیلی تھی۔ اس نے ایشیا، یوروپ، شمالی امریکہ اور افریقہ کو جکڑ لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں بھی دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے پہلے بھی کئی وبائی امراض آئے اور لاکھوں لاکھ لوگوں کو اپنا لقمہ بنا گئے۔کورونا کی وبا سب سے پہلے سال 2019 کے اواخر میں چین کے شہر ووہان میںپھیلی تھی۔
وہیں سے یہ پوری دنیا میں پہنچ گئی۔ اِس وقت ووہان کے حالات بہتر ہو گئے ہیں۔ وہاں معمولات زندگی لوٹ آئے ہیں۔ لیکن اس بارے میں چین نے پوری دنیا کو دھوکے میں رکھا۔ اس نے اقوام متحدہ یا صحت کے عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ اموات کے سلسلے میں بھی اس نے رازداری برتی۔ جس ڈاکٹر نے کورونا وبا کے پھیلنے کا انکشاف کیا تھا اسے ہلاک کر دیا گیا۔ اسی طرح ابھی گزشتہ دنوں اس صحافی کو ہلاک کر دیا گیا جس نے سب سے پہلے کرونا کی رپورٹنگ کی تھی۔ بہر حال جب بھی دنیا پر ایسی کوئی مصیبت آتی ہے تو اس کے علاج کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔ چونکہ یہ بیماری پہلی بار دنیا میں آئی تھی اس لیے اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔ علاج صرف یہ تھا کہ لوگ احتیاط کریں۔ ایک دوسرے سے ملنے جلنے سے بچیں۔ بھیڑ بھاڑ سے گریز کریں۔ سماجی فاصلہ قائم کریں۔ کیونکہ اس کا وائرس بڑی تیزی سے دوسرے انسان کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے پوری دنیا میں چھ فٹ دوری کا فارمولہ اپنایا گیا اور دنیا بھر میں لاک ڈاون کیا گیا۔ تاکہ لوگ نہ تو ایک دوسرے کے رابطے میں آئیں گے اور نہ ہی ان کو یہ بیماری لگے گی۔اس کے ساتھ ہی پوری دنیا کے سائنس داں اس کا علاج تلاش کرنے میں لگ گئے۔ اس کے لیے ویکسین بنائی جانے لگی۔ عام طور پر کوئی بھی ویکسین بنانے میں سالوں سال لگ جاتے ہیں۔
پولیو کی ویکسین غالباً دس سال میں بن کر تیار ہوئی تھی۔ لیکن دنیا بھر کے سائنس دانوں نے شب و روز کی محنت کرکے ایک سال کے اندر ہی کرونا کی ویکسین بنا لی۔ اب کئی ملکوں میں اس کا استعمال شروع ہو گیا ہے۔ ہندوستان میں بھی اس کا تجرباتی استعمال ہو رہا ہے۔ پورے ملک میں اس کی تمثیلی مشق بھی کی گئی ہے تاکہ ویکسین لگانے کے سلسلے میں اگر کچھ خامیاں ہوں تو انھیں دور کر لیا جائے۔ وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے اعلان کیا ہے کہ چند روز کے اندر ملک کے شہریوں کو کرونا ویکسین لگنی شروع ہو جائے گی۔ ہندوستان میں دو دو ویکسین کے استعمال کی اجازت مل گئی ہے۔ ایک آکسفورڈ کی ”کووی شیلڈ“ ہے جسے پونے کے سیرم انسٹی ٹیوٹ نے بنایا ہے اور دوسری ”کوویکسین“ ہے جسے ہندوستان کے اندر بھارت بائیو ٹیک نے بنایا ہے۔ دوسری ویکسین مکمل طور پر دیسی ہے۔ جبکہ پہلی آکسفورڈ کی ہے جسے پونے میں بنایا گیا ہے۔ ہندوستانی سائنس دانوں کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ انھوں نے چند ماہ کے اندر ہی ویکسین بنا لی۔ اس بارے میں ان کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔ لیکن اس بارے میں ایک بہت افسوسناک بات دیکھنے کو ملی وہ یہ کہ اس پر سیاسی پارٹیوں نے سیاست شروع کر دی ہے۔ یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ بھارت بائیو ٹیک کی کوویکسین کے استعمال کی اجازت کیوں دی گئی جبکہ وہ ابھی اپنے تیسرے تجربے کے مرحلے میں ہے۔
اس پر سائنس دانوں کی جانب سے اظہار افسوس کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ویکسین جیسی چیز کو سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہیے۔ اور یہ بات درست بھی ہے۔ یہ کہنا کہ ہم بی جے پی کی بنائی ہوئی ویکسین نہیں لگوائیں گے، مناسب بات نہیں ہے۔ کیونکہ ویکسین بی جے پی نے نہیں بلکہ سائنس دانوں نے بنائی ہے۔ کسی بھی دوا کو کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ جوڑنا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ صحت عامہ کا مسئلہ ہے۔ لوگوں کی صحت سے کھلواڑ نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اس معاملے میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔اس سلسلے میں بعض مسلم حلقوں کی جانب سے ویکسین کے حرام حلال کی بات اٹھائی جا رہی ہے۔ ممبئی کی ایک مسلکی تنظیم نے میٹنگ کرکے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا ویکسین حلال ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر اس میں خنزیر کی چربی یا ہڈی ملائی گئی ہوگی تو وہ مسلمانوں کے لیے حلال نہیں ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ ہمیں یہ بتایا جائے کہ ویکسین میں کیا کیا اجزا ملائے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ا س کی سمجھ ہر عام انسان کو ہو سکتی ہے کہ کس دوا میں کیا کیا اجزا ملائے گئے ہیں۔ یہ صرف میڈیکل شعبے سے وابستہ افراد ہی جان اور سمجھ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے او رجو سب سے اہم ہے کہ اسلام میں زندگی بچانے کے لیے حرام چیز کھانے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔
اسلام میں انسانی جان کی بڑی اہمیت ہے۔ اسے بہت افضلیت حاصل ہے۔ اسے ہر حال میں بچایا جانا چاہیے۔ اسی لیے اسلام میں خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اگر کسی کی جان جا رہی ہو اور صورت حال یہ ہو کہ اگر وہ اتنی مقدار میں حرام غذا کھا لے جس سے اس کی جان بچ جائے تو اس کی اجازت دی گئی۔ ویکسین انسانی جانوں کو بچانے کے لیے ہی بنائی گئی ہے۔ لہٰذا اس میں حلال حرام دیکھنے کی شاید ضرورت نہیں ہے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ جب ہم بیمار پڑ کر کسی اسپتال میں داخل ہوتے ہیں یا کسی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو کیا اس سے یہ پوچھتے ہیں کہ بھائی تم جس دوا سے میرا علاج کرو گے وہ حرام ہے یا حلال ہے۔ اس دوا میں کیا کیا چیزیں ملائی گئی ہیں۔ کن اجزا سے اسے تیار کیا گیا ہے۔ اس وقت تو ہمارے سامنے بس یہ معاملہ ہوتا ہے کہ ہم کس طرح اس بیماری سے ٹھیک جائیں۔ اگر جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں تو کیا صورت اپنائی جائے اور کیسا علاج کیا جائے کہ جان بچ جائے۔ جب ان حالات میں حلال حرام نہیں دیکھا جاتا تو ویکسین کے سلسلے میں یہ سوال کیوں اٹھایا جا رہا ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ ایسی بہت سی دوائیاں ہیں جن میں خنزیر اور جانے کس کس جانور کی چربی اور ہڈی ملائی جاتی ہے۔ جب ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں پوچھتے تو ویکسین کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک مسلمان کو حلال و حرام کی تمیز ہونی چاہیے اور اسے حرام چیز سے ہر حال میںبچنا چاہیے۔ لیکن ایک کیفیت اضطراری بھی ہوتی ہے۔
اضطراری کیفیت میں ایسے کام کی اجازت مل جاتی ہے جس کی عام حالات میں اجازت نہیں ہوتی۔ شکر ہے کہ بعض ہی حلقوں سے ویکسین کے حرام یا حلال ہونے کی بات اٹھی ہے پوری ملت اسلامیہ کی جانب سے نہیں۔ اس بارے میں دار العلوم دیوبند نے بہت ہی معتدل فیصلہ کیا ہے۔ لہٰذا ویکسین کو حرام و حلال کی بحث میں پھنسا کر دنیا بھر میں اپنی رسوائی کا سامان کرنے سے بچنے کی ضرورت ہے۔
sanjumdelhi@gmail.com