Corruption issues in Afghanistan and the role of development assistanceتصویر سوشل میڈیا

قادر خان یوسف زئی

امریکاا ور ناٹو نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو انہیں گمان تھا کہ عسکری طاقت کے زعم میں من پسند مفادات حاصل کرنے میں رکاﺅٹ کا سامنا نہیں ہوگا ، تاہم سرزمین افغانستان کی تاریخ سے واقفیت ہونے کے باوجود جارحیت کے نتائج جہاں ان کے توقعات کے برعکس نکلے تو دوسری جانب شکست کے علاوہ مالی نقصانات نے امریکی معیشت کو بڑا نقصان پہنچایا ۔ امریکا کے لئے دوہری مشکلات یہ بھی تھی کہ دنیا کے سامنے ایک ایسی افغان کٹھ پتلی حکومت بنائی جائے جس سے اپنے مفادات کے مطابق استعمال کیاسکے کہ وہ کامیاب رہا ہے ، لیکن امریکی کمزوری کا فائدہ کابل انتظامیہ نے بھرپور طریقے سے اٹھایا اور خود امریکا کے اُن اداروں نے کابل انتظامیہ کی مالی بے ضابطگی و فراڈ پر مشتمل ان گنت رپورٹس جاری کیں جس سے ثابت ہوا کہ افغانستان میں امن کے راستے میں کابل انتظامیہ کے بیشتر کرپٹ اراکین حائل ہیں۔ جس کے باعثخطے میں امن کے قیام میں کابل انتظامیہ کے کردار پر مسلسل سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں ۔

امریکا نے جب نائن الیون کے بعد2002میں افغانستان کے خلاف جارحیت کا آغاز کیا تو اسے اندازہ نہیں تھا کہ جیسے امریکا چند روزہ جنگ سمجھ رہا ہے دو دہائیوں پر مشتمل ہوجائے گی ، افغانستان میں تعمیر نو کے عمل کی نگرانی کرنے والے ادارے، سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (سیگار) کے مطابق امریکا کو افغان جنگ میں 2002سے اب تک19ارب ڈالر سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ خیال رہے کہ امریکا ، اس جنگ میں ہونے والے اخراجات کی خود نگرانی بھی کرتا ہے ، لیکن اس کے باوجود مبینہ طور پر سیگار کی رپورٹ انکشاف کرتی ہے کہ 19ارب ڈالر کی خطیر رقم فراڈ اور ناجائز استعمال پر خرچ کی گئی ۔ امریکا نے افغانستان میں تعمیر نو کے مختلف پروگراموں کے لئے قریباََ134ارب ڈالر کی منظوری دی تھی ، لیکن ان منصوبوں کا جب جائزہ لیا گیا تو انکشاف ہوا کہ کل بجٹ کے قریباََ 30فیصد یعنی 63بلین کے اخراجات میں سے19بلین ڈالر فراڈ و ناجائز استعمال پر خرچ کئے گئے۔سیگار کے مطابق امریکی کانگریس نے افغانستان میں جنگی اخراجات کے علاوہ 134ارب ڈالر منظور کئے ، لیکن رقم کا بڑا حصہ صرف جنوری 2018 سے دسمبر 2019 تک تقریباً ایک اشاریہ آٹھ ارب ڈالر فراڈ اور ناجائز استعمال میں ضائع ہوئے۔

دوحہ میں بین الافغان مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہیں اور رابطہ گروپ کے درمیان ابتدائی طور پر مذاکرات کا یجنڈا دو نکات پر اختلافات کا شکار ہے ۔ کابل انتظامیہ ، بین الافغان مذاکرات کے شروع ہونے سے قبل افغان طالبان سے اپنے ایجنڈے کے مطابق عمل چاہتی ہے جب کہ افغان طالبان امریکا کی کٹھ پتلی حکومت کے خاتمے اور اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ رواں برس فروری میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مفاہمتی امن عمل کا اصولی معاہدہ طے پایا تھا ، جس کے تحت مئی2021تک تمام امریکی افواج کو افغانستان چھوڑنا ہوگا ۔ دو دہائی کی اس جنگ میں جہاں انفرا اسٹرکچر کی بحالی کے نام پر134ارب ڈالر کے منصوبوں کو کابل انتظامیہ کے ساتھ شروع کئے گئے تو دوسری جانب امریکا کو اپنے2400فوجیوں کی جانی نقصان کے علاوہ جنگ میں ایک کھرب ڈالر کے اخراجات بھی اٹھانا پڑے ۔ عالمی اداروں کا ماننا ہے کہ افغانستان میں سرکاری سطح پر کرپشن سنگین مسئلہ ہے ، کرپشن کو روکنے کے لئے جہاں کابل انتظامیہ مفاداتی ٹکراﺅ کے سبب ناکام نظر آئی ہے تو دوسری جانب امریکا جدید ترین جنگی ساز و سامان سے لیس فوج کے تعاون کے باوجود شکست سے دوچار ہوا ، کابل انتظامیہ میںشامل بیشتر اراکین اور مخالفین کی جانب سے بھی متعدد بار کرپشن ، فراڈ و رقوم کے ناجائز استعمال کے حوالے سے نشان دہی کی گئی لیکن امریکا کو اربوں ڈالر کی کرپشن کو قابو پانے میں مشکلات کا سامنا رہا۔

کئی عالمی اداروں نے مالی بدعنوانیوں پر سخت تنقید کی۔عالمی خارجہ امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق کابل انتظامیہ ، بین الافغان مذاکرات میں بار بار روٹے بھی اسی وجہ سے اٹکا رہی ہے تاکہ اس کی کرپشن جاری رہے اور مستقبل کی نئی ممکنہ حکومت کے احتساب سے بچا جاسکے۔2020 کے اوائل میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کی انتظامیہ کرپشن کو جڑ سے ختم کرنے کی بجائے بین الاقوامی برادری کیلئے کاغذی کاروائی میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔آئندہ ماہ جنیوا میں، جب افغان عہدیدار اور عطیہ دینے والے عالمی شراکت دار مستقبل میں افغانستان کیلئے اپنی امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیں گے تو وہاں انسدادِ کرپشن اور اصلاحات کے پروگرام بھی زیرِ غور آئیں گے۔ خیال رہے کہ افغان طالبان سے ہونے والا اصولی معاہد کو امریکا کےعلاوہ اقوامِ متحدہ،سلامتی کونسل اور ہمسایہ ممالک سمیت دنیا بھر کے بڑے ممالک نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کی بھرپور حمایت بھی کی۔ جس میں کابل انتظامیہ کی خواہشات کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی۔گو کہ امریکا نے برسا برس کوشش کی کہ وہ براہ راست کسی معاہدے کا حصہ نہ بنے، لیکن افغان طالبان نے کٹھ پتلی حکومت کو ماننے سے مسلسل انکار کیا اور ایک اہم اسٹیک ہولڈر ہونے کے ناطے خود کو سپرپاور قرار دینے والے عالمی طاقت کے ساتھ معاہدہ کرکے کئی جنگجو گروپوں اور کابل انتظامیہ کو مایوس کیا۔

افغان طالبان نے روزِ اول سے یہ دوٹوک موقف اختیارکیا کہ” امریکا اور یورپ کی طرف سے مقرر کردہ بلکہ مسلط کردہ انتظامیہ کو نہ ہم جانتے ہیں اور نہ ان کے پاس اتنا اختیار اور قوت ہے کہ افغانستان پر جاری استعمار کے خاتمہ کے لیے بروئے کار آئے اور ملک وملت کے مستقبل کے بارے فیصلہ کرسکے۔ اس لیے بات ہم ان سے کریں گے جو جنگ کی جڑ ہے اور جس نے اپنی ظالمانہ جارحیت سے وطنِ عزیز پر قبضہ کررکھا ہے“-دوحہمعاہدہ میں ملک کی مکمل آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔افغان طالبان کا نظریہ ہے کہ افغان قوم کے لیے افغانستان کی آنگن میں شریعتِ اسلامیہ کو نافذ ہو اورنیا کے ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعاون کی بنیاد پر روابط بنائے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں بیرونی مداخلت کا سدباب کے طور پردوحامعاہدہ میں امریکا نے بھی اس اَمر پر یقین دہانی کرائی کہ افغانستان کے مستقبل اور بین الافغان مذاکرات سمیت افغانستان کے کسی بھی قومی اور ملی ایشو میں وہ مداخلت نہیں کرے گا-امریکا پر بحیثیتِ ایک ریاست دوحہ معاہدہ کی بنیاد پر ذمہ داری عائد ہوئی کہ مذاکراتی ٹیم کی راہ میں جو رکاوٹیں آئےں ان کو دور کردے اور اپنے اصلی موضوع کی جانب انہیں متوجہ کرے-کیونکہ امریکا کے ساتھ اس طرح کے بین الافغان مذاکرات پر اتفاق ہوچکا ہے جس کی ٹیم افغانی سیاسی جماعتوں تشکیل ہو،اور اس کے ارکان انفرادی یا جماعتی دائرہ میں نمائندگی کرتے ہو،اور کابل انتظامیہ بھی ٹیم کے ایک رکن کی حیثیت سے شرکت کے مجاز ہو-مذاکراتی ٹیم کو فرمائشی ایجنڈوں سے اجتناب کرنا چاہیے-بعض افراد اور جماعتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے جو خلاءموجود ہے اسے جلد سے جلد دور کرناچاہیے –

افغان طالبان کے مطابق امارتِ اسلامیہ کی انٹرا افغان ڈائیلاگ میں موجودگی اس لیے نہیں کہ اقتدار کو طرفین کے درمیان تقسیم کیا جائے-بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہر افغانی گروہ اور سرکردہ شخصیت کے مطالبات،تحفظات کو سنے اور انہیں باور کرائے کہ آئندہ حکومت میں ہر افغان باشندے کو جگہ حاصل کرنے کا حق ہے-اب بعض سرکردہ شخصیات جیسے احمدشاہ مسعود اور برھان الدین ربانی کے گھرانے یا ان کی طرح دیگر مشہور اور قومی سربراہ افراد وارننگ دے رہے ہیں کہ رواں مذاکرات اور ان کے نتیجہ میں ہونے والے فیصلے ہمیں منظور نہیں ہیں-اس طرح کے افراد کو حالات کے پیشِ نظر ضرور مذاکراتی ٹیم میں جگہ دینی چاہیے ۔پاکستان روز اوّل سے انہی تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت افغانستان میں بے امنی کو ختم نہیں کیا جارہا اور افغانستان کی آڑ لے کر پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی سازشوں کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔ متعدد واقعات دوحہ معاہدے اور بین الافغان مذاکرات کے عمل کے دوران رونما ہوچکے ہیں جن کا مقصد پاک۔افغان تعلقات کو کشیدہ کرکے جنگ تک پہنچانا تھا تاہم پاکستان نے استقامت و صبر کے ساتھ ان سازشوں کا سامنا کیا اور افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب ہونے سے بچانے کے لئے اپنے مثبت کردار کو مزید بڑھایا ، جس کا عمل ثبوت افغان رہنماﺅں کے مختلف وفود کی پاکستان آمد اور امن کوششوں کو تسلیم کرنا ہے۔ ضرورت اس اَمر کی ہے کہ امریکا ، خطے میں امن کے لئے اپنے وعدوں و معاہدوں پرخود بھی عمل پیرا ہو اور اپنی حاشیہ بردار حکومت کو بھی پابند کرے۔افغانستان گذشتہ چار دہائیوں سے مسلسل جنگ سے دوچار ہے ، لاکھوں افغانی اپنے وطن سے دور ہیں ، نئی نسل اپنے آبائی وطن پُر امن ماحول میں جانے کی شدت سے آرزو مند ہیں ، اس لئے اقوام عالم کو خطے میں امن کو یقینی بنانے کے لئے ٹھوس کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ لاکھوں مہاجرین محفوظ افغانستا ن واپس لوٹ سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *