Dear Mr. President:Do not withdraw from Afghanistanتصویر سوشل میڈیا

نئی دہلی: محترم جناب صدر: افغانستان سے دستبردار نہ ہوں۔صدر ٹرمپ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا امریکہ کو سال رواں میں افغانستان سے اپنی تمام فوجیں واپس بلا لینی چاہئیں۔ ایسا کرنا کسی دشمن کے سامنے جسے ہم پہلے ہی شکست فاش دے چکے ہیں ذلت آمیز انداز میں ہتھیار ڈالنا ہوگا ۔ یہ بھی ایک تباہ کن غلطی ہوگی۔آج امریکی مسلح افواج افغانستان میں ان خونخوار دشمنوں سے لڑ رہی ہے جو اپنی سرزمین پر امریکیوں کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بناتے اور ہلاک کرنے پر تیار ہتے ہیں۔ وہ افغانستان میں پولس کا کردار ادا نہیں کر ہی ۔وہ افغازنوں کا اپنے ملک کی تعمیر میں مدد نہیں کر رہی ۔ یہ وہ ذمہ داری ادا کر رہی ہے جو صرف امریکی مسلح افواج ہی انجام دے سکتی ہیں۔ اگر امریکی فوجیوں کا وقت سے پہلے انخلا کرلیا گیا تو صرف افغان ہی نہیں امریکیوں کو بھی اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے ۔امریکہ 2001 میں القاعدہ کو شکست دینے اور ان اڈوں سے جو 11 ستمبر کو کیے جانے والے حملوں کے لیے القاعدہ کو نکالنے اور دہشت گرد گروپ کو واپس آنے سے روکنے کے لیے افغانستان آیا تھا۔ ہم نے 2002 میں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر لی اور اس وقت سے اب تک القاعدہ اور اب دولت اسلامیہ کو ایک اہم محفوظ پناہ گاہ دوبارہ حاصل کرنے کی اجازت دیئے بغیر افغانستان چھوڑنے کی راہیں تلاش کرنے کی جدوجہد میں لگے ہیں ۔اس کوشش میں بہت غلطیاں ہوئیں اور نقصانات بھی سہنا پڑے ۔ لیکن صدر پہلے ہی فوجی نفری میں کمی کا حکم دے چکے ہیں اور اس سال کے اواخر تک افغانستان میں فوج کی تعدفاد 10ہزار سےت بھی کم ہو جائے گی ۔ یہ جنگ کے ابتدائی ایام میں افغانستان میں موجود امریکی فوج کا دسواں حصہ ہے ۔

اگلے چند ہفتوں کے اندر پیچیدہ انخلا زبردست خطرات کا باعث بن سکتا ہے اور اس میں بلا وجہ امریکی فوجی مارے جا سکتے ہیں ۔آج جوامریکی فوجیں افغانستان میں موجود ہیں وہ ایک واضح اور محدود مشن انجام دے رہی ہیں۔ وہ بغاوت کچلنے میں نہیں لگی ہوئی ہیں۔ وہ ملک کی تعمیر میں مصروف نہیں ہیں۔ وہ پولیس نہیں ہیں۔ وہ طالبان سے لڑنے میں افغان فورسزکا ایسا ساتھ نہیں دے رہیں جیسا کہ ابتدائی ایام میں دیا تھا ۔ اس کے بجائے وہ القاعدہ اور دولت اسلامیہ سے جس طرح لڑ رہی ہیں اس طرح صرف امریکی فوج ہی لڑسکتی ہے۔افغانستان نہ صرف ایک دلدل بن گیا ہے جہاں سے امریکہ کو خود ہی نکلنا ہو گا بلکہ ایک ایسا تشویشناک مقام بن گیا ہے کہ امریکہ کو خونخوار دشمنوں کو غیر مستحکم اور لڑکھڑاتی حالت میں رکھنے کی ضرورت ہے ۔ دسمبر میں امریکی ریاست فلوریڈا کے پینسا کولا شہر میں ہونے والے اس دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی اور اس کی انجام دہی میں مدد یمن میں جزوی طور پر محفوظ ٹھکانوں میں مزے کر رہے القاعدہ کے رہنماؤں نے کی تھی۔

اس حملے کا مقصد اور اثرات ایک حد تک محدود تھے کیونکہ امریکہ یمن میں اس گروہ کے رہنماو¿ں اور کلیدی سہولت کاروں کو نشانہ بنانے اور ان کو ہلاک کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا۔ اس حملہ سے یہ بات سامنے آئی کہ اگر دہشت گرد گروپوں کو یمن کی طرح افغانستان میں بھی ایک محفوظ پناہ گاہ مل گئی تووہ اس کو سرزمین امریکہ پر حملے کرنے کا منصوبہ بنانے اورانہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے استعمال کریں گے۔ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ امریکی فوجوں کے جانے کے بعد بھی امریکیوں کو دھمکیاں دیتے یا حملہ کرتے ہیں تو وہ یمن ماڈل ذہن میں رکھتے ہوئے افغانستان میںدہشت گردوں پر حملہ دیں گے۔ لیکن افغانستان یمن نہیں ہے۔ بڑی تعداد میں فوج اتارے بغیر امریکی فوجیں یمن ، صومالیہ ، شام اور لیبیا میں اہداف کو نشانہ بنا سکتی ہیں کیونکہ ان ممالک کے لمبے چوڑے ساحل ہیں۔ افغانستان زمین سے گھرا ہوا ہے اور سب سے خطرناک علاقے سمندر سے 700 میل سے زیادہ فاصلے پر ہزاروں فٹ اونچے پہاڑوں سے گھری وادیوں میں ہیں ۔

امریکی افواج افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں قائم اپنے اڈوں سے ہی نشانہ بنا سکتی ہیں۔ ان اڈوں کو چھوڑنے کا مطلب ان گروہوں کے خلاف انتہائی ضروری اور بڑے پیمانے پر کامیاب کارروائیوں کو ترک کر دینا ہے۔ایک بار اگر امریکی فوجو ں نے افغانستان چھوڑ دیا تو افغانستان میں ان کی واپسی کے اخراجات نہیں ملیں گے جو دولت اسلامیہ کے تباہ کن عروج کے بعد عراق میں دوبارہ واپس آنے سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ 2014 میں ، امریکہ نے پڑوسی ملک کویت میں نقل و حمل کے بنیادہ ڈھانچے اور طویل مدتی اڈے قائم کرنے پر انحصار کیا۔ اس کے برعکس امر یکہ نے افغانستان تک پہنچنے کے لئے پاکستان کے توسط سے ، جہاں اس کا کوئی اڈہ نہیں ہے ، غیر یقینی اور بعض اوقات خطرے سے دوچار سپلائی لائنوں پر انحصار کیا۔ افغانستان سے فوجی انخلا کا فیصلہ ناقابل واپسی ہے۔امریکہ افغانستان میں القاعدہ سے لڑنے کے اخراجات برداشت کرسکتا ہے۔ افغانستان میں چند ہزار ہزار فوجیوں کی ضرورت ہے جو امریکی فوج کا ایک چھوٹا ٹکڑا اور دفاعی بجٹ کا ایک معمولی حصہ ہوگا – یعنیوفاقی بجٹ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ امریکی کمانڈروں نے اس وقت افغانستان میں موجود فوج سے بھی کم تعدا دباقی چھوڑنے کی سفارش کی ہے ۔

فوج کی یہ چھوٹی سی تعداد القاعدہ کے خلاف امریکیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ایک دانشمندانہ سرمایہ کاری ہے۔ لیکن تمام فوجوں کے انخلا سے امریکی عوام خطرناک طور پر بے نقاب ہو جائیں گے۔ افغانستان میں امریکی ہلاکتیں بہت کم رہی ہیں اور رہیں گی۔ اور جب ہم مرنے والے ہر شخص کا سوگ مناتے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ ہمارے فوجی اور خواتین (اور ان کے غیر فوجی ہم منصب) ہلاکت خیزخطرات سے اپنی قوم کا دفاع کرنے کے لئے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اگر ان کی قربانیاں رائیگاں گئیں تو ہم ان کے شکر گذار نہیں کہلائیں گے ۔جناب صدر ، براہ کرم شرمناک خود سپردگی اور اپنے نہایت خونخوار دشمنوں کے خلاف اہم محاذ سے واپسی کر کے امریکی افواج پر کوئی غیر ضروری شکست کی مہر ثبت نہ کریں ۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ ہم محض افغانوں کو ملک کی تعمیر میں مدد بہم پہنچانے کے لیے افغانستان میں نہ ہمیشہ رہ سکتے اور نہ ہی رہنا چاہئے ۔ بات یہ نہیں ہے کہ ہم وہاں کیوں گئے اور آج بھی ہم وہاں کیوں ہیں۔لیکن امریکیوں کو ان لوگوں سے ،جو ہمیں مارڈالیں گے، بچانے کے لیے جب تک ہماری ضرورت ہو ، فوج کی معمولی نفری کے ساتھ ہم وہاں رہ سکتے ہیں اور رہنا چاہئے۔ آپ نے بجا طور پر کہا ہے کہ افغانستان میں اور جہاں کہیں بھی ہماری فوج جس مشن پرتعینات ہے اسے اس مشن کو سرانجام دینے دیں۔

(جو لیبرمین اور ریٹائرڈ جنرل جیک کین ،جنہوں نے تجزیہ نگار کے طور پر اس مضمون میں حصہ لیا بالترتیب 1989 سے 2013 تک امریکی سینیٹ میں کنیکٹی کٹ کے نمائندے اور امریکی فوج کے سابق نائب سربراہ ہیں۔ دونوں انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹڈی آف وار کے بورڈ آف

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *